بھارت سی پیک کا نام تبدیل کرنے کا شوشہ چھوڑ کر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتاہے ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
چند روز پہلے یہ کچی پکی اطلاع منظر عام پر آئی تھی کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا نام بدل دیا جائے تو بھارت بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔ دراصل نریندر مودی کے ذہن میں یہ خیال بھارتی میڈیا نے ڈالا تھا کہ بھارت کو بھی اس منصوبے کا حصہ بننا چاہئے کیونکہ یہ منصوبہ 62 ملکوں کو آپس میں جوڑ رہا ہے اور اگر بھارت اس سے باہر رہ گیا تو وہ ان اقتصادی فوائد سے کلی طور پر محروم رہ جائے گا جو اس منصوبے سے خطے کے دوسرے ملکوں کو حاصل ہونے والے ہیں، لیکن مودی اُن دنوں ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے، انہوں نے ایک سے زیادہ بار چینی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ بیجنگ میں وفود بھیجے اور جب گزشتہ برس چینی صدر نے بھارت کا دورہ کیا تو ان کے ساتھ بھی یہ مسئلہ اٹھایا۔ مودی نے جو تحفظات چینی قیادت کے سامنے رکھے وہ اس نے مسترد کر دئیے اور یہ کہا کہ ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ منصوبے کے تصور کے تحت ہی سی پیک منصوبہ شروع کیا گیا ہے جو نہ صرف چین اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے مفید ہے بلکہ علاقے کے دوسرے ملکوں کو بھی آپس میں مربوط کرے گا، اس کے باوجود نریندر مودی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے، لیکن اس دوران بھارتی میڈیا میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ مودی کیوں ہٹ دھرمی پر اترے ہوئے ہیں، انہیں تو خود آگے بڑھ کر اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ غالباً اسی خیال سے متاثر ہوکر مودی نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، البتہ ساتھ ہی خبث باطن کا مظاہرہ کر دیا اور کہا کہ منصوبے کا نام بدلا جائے جس پر چینی قیادت نے غور کا وعدہ کیا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک مقاصد کا حصول اہم ہے۔ پروسیجرل باریکیاں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، تاہم یہ ناممکن ہے کہ چین اس سلسلے میں پاکستان کے خدشات کو اہمیت نہ دے۔ البتہ وہ اتنا کرسکتا ہے کہ بھارت کے خیالی خدشات رفع کر دئیے۔ ایک اور پہلو سے بھی نریندر مودی کے اس اقدام کو دیکھا جا رہا ہے جس طرح اس نے سارک کانفرنس کو یرغمال بنایا ہوا ہے، کیا وہ سی پیک میں شامل ہوکر اسے اندر سے تارپیڈو کرنا چاہتا ہے؟ کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ بھارت کو پاکستان کا مفاد ایک آنکھ نہیں بھاتا، اس کی تمام تر سرگرمی کا مقصد سی پیک کو نقصان پہنچانا ہے، اسی لئے اس نے کلبھوشن کو پاکستان بھیجا۔ جب منصوبے سے باہر رہ کر اسے کامیابی حاصل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی تو اس نے منصوبے میں شامل ہونے کا تاثر دے کر اسے نقصان پہنچانے کی ٹھانی ہے، اس لئے بھارتی عزائم کے بارے میں باخبر رہنا ہوگا۔
یہ درست ہے کہ بھارت سارک کا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن اس نے اس تنظیم کو متحرک اور فعال کبھی نہیں رہنے دیا۔ اس تنظیم میں باہمی اختلاف زیر بحث نہیں لائے جاسکتے، لیکن پاک بھارت تعلقات کے مخصوص پس منظر میں دونوں ملکوں کے سربراہان یا نمائندے آپس میں کھچے کھچے رہتے ہیں۔ کھٹمنڈونیپال کی سربراہ کانفرنس میں جب اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیراعظم اور جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر تھے تو دونوں اس کوشش میں رہے کہ ان کی آنکھیں چار نہ ہو جائیں لیکن اس وقت بھی جنرل پرویز مشرف نے واجپائی کی بزرگی کا احترام کیا اور اپنے خطاب کے بعد ڈائس سے سیدھے واجپائی کی نشست کی جانب گئے جہاں انہوں نے بیٹھے بیٹھے صدر جنرل پرویز مشرف سے ہاتھ ملایا، ان کا عذر یہ تھا کہ انہیں گھٹنوں کی تکلیف ہے اور اٹھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے، لیکن جن بھارتی رہنماؤں کا یہ پرابلم نہیں ہے وہ بھی اظہار ناگواری سے گریز نہیں کرتے۔ گزستہ برس اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس ہونے والی تھی جس کا بھارت نے بائیکاٹ کر دیا، پھر کئی اور ملکوں کو بھی ساتھ ملایا اور یوں یہ کانفرنس نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ سارک کانفرنس اپنے قیام کے بعد سے لے کر اب تک زیادہ متحرک کردار ادا کرسکی ہے اور نہ ہی اس سے وابستہ توقعات پوری ہوسکی ہیں، جو اس تنظیم کے بانیوں کے ذہن میں تھیں۔ جو تنظیمیں اس کے بعد وجود میں آئیں وہ بہت آگے نکل گئیں لیکن سارک کو بھارت کی عصیت نے جکڑا ہوا ہے۔ اسے یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ کہیں اس تنظیم کے فعال ہونے کی صورت میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہ پہنچ جائے۔ اب بھارت اور پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت ملنے والی ہے تو یہ بات سامنے رکھنا ہوگی کہ بھارت اس کا حشر بھی سارک کی طرح نہ کر دے۔ اس پس منظر میں جب یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ بھارت سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے لیکن اسے نام پر تحفظات ہیں تو اس کے عزائم بھی سامنے آجاتے ہیں۔ اس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد بیجنگ کی ون بیلٹ، ون روڈ کانفرنس میں شرکت کے لئے چین میں ہے، جہاں سی پیک راہداری کے راستے میں آنے والے بہت سے اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کے معاہدے بھی متوقع ہیں، اس موقع پر پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنے خدشات کا کھل کر اظہار کرنا چاہئے۔ تازہ ترین مسئلہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا ہے جسے پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ بھارت اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ہے، حالانکہ یہ اس عدالت کے حیطہ کار سے باہر ہے، لیکن لگتا ہے بھارت اپنے اس نیول افسر کو بچانے کے لئے ہر حربہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے لئے بھارت نے اپنا جاسوس بھیج رکھا تھا اور جس کو یہ ہدف دیا گیا تھا کہ وہ سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے کام کرے، اس مقصد کے پیش نظر تخریب کاری بھی کی گئی۔ جاسوس نے گرفتاری کے بعد سارے اعترافات بھی کرلئے اور اعتراف جرم کے بعد سزا پائی۔ اس ملک کی فلاح و بہبود سے بھارت کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، اس لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ سی پیک میں شمولیت کے لئے اس کے نام بدلنے کا شوشہ اس نے اپنی کسی طویل المدت منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھ کر تو نہیں چھوڑا۔ بھارت اگر اس میں شمولیت کے لئے مخلص ہو تو پہلے اسے صدق دلی کے ساتھ اپنے تعلقات پاکستان کے ساتھ بہتر کرنے چاہئیں اور یہ اس صورت ہو سکتے ہیں جب کشمیر سمیت تمام تنازعات پرامن طور پر انصاف کی بنیاد پر حل کرلئے جائیں۔ اس کے بعد اقتصادی تعاون کی بات بھی ہوسکتی ہے اور نئی بنیادیں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ کشیدگی کی اس فضا میں جو اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہے، اقتصادی تعاون کا تصور بھی محال ہے۔ چین نے ہمیشہ دونوں ملکوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کریں، لیکن بات چیت کب اور کیسے ہو، یہی مشکل مرحلہ ہے۔
شوشہ