’’ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘ ‘ مزید چھ کشمیری شہید!
تجزیہ: چودھری خادم حسین
بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، اب مقبول بٹ کی برسی کے حوالے سے مظاہرہ کرنے والوں پر فائرنگ کر کے چھ کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جوابی ردعمل کے طور پر نماز جنازہ میں پورے کا پورا شہر امڈ آیا اور ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ بھارتی مظالم اور کشمیریوں کے جذبے میں جو مقابلہ شروع ہے، اس میں کشمیری نوجوان سرخرو ہوں گے کہ وہ اب پیچھے نہیں ہٹ رہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان مظالم پر عالمی ضمیر کیوں نہیں جاگتا؟کشمیری خواہ ان کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے یا وہ آزاد کشمیر کے باسیوں کے لخت جگر اور والدین ہیں، یہ پوری دنیا کے ممالک میں ہیں۔ خصوصاً برطانیہ میں ان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، اور یہ سب کشمیریوں کے حق اور بھارت کے مظالم کے خلاف مظاہرے کرتے اور آواز بھی بلند کرتے ہیں اس کے باوجود عالمی طاقتیں خصوصاً با اثر ممالک اس طرف توجہ نہیں دے رہے، ان میں برطانیہ اور امریکہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں کہ یہاں انسانی حقوق کی بہت بات کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کشمیریوں کی جدوجہد کے حوالے سے پاکستان واحد ملک ہے جو سیاسی اور اخلاقی طور پر آواز بلند کرتا ہے لیکن اس کے اثرات بھی اس قدر مرتب نہیں ہو پا رہے جتنے ہونے چاہئیں۔ کیا ہماری پالیسی یا کوشش میں کوئی کمی ہے؟ اس پر ملک کے اندر بھی بات ہوتی ہے۔ حکومت وقت کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کے حقوق پر ہر ممکن اقدام کئے جارہے ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی بھی اپوزیشن کی طرح بعض تحفظات کا اظہار کرتی ہے اور مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ موثر اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے، جبکہ حقیقت قدرے مختلف ہے۔ محترم مولانا فضل الرحمان کو کس نے روکا ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں مہم نہ چلائیں وہ تو حکومت کے بھی حلیف ہیں، ان کو شکوہ زیب نہیں دیتا۔ ملک کی سیاسی جماعتیں تو مولانا کی کارکردگی پر معترض ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کمیٹی مولانا کی قیادت میں فعال کردار ہی ادا نہیں کر رہی اور اس حوالے سے خود مولانا بھی تنقید کی زد میں ہیں اور حکومت پر بھی اعتراض کیا جا رہا ہے۔یہ کتنے ستم کی بات ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی اور فلسطینی مظلوم سالہا سال سے ظلم و تشدد کا نشانہ بند ہے ہیں ان پر ہونے والے مظالم الم نشرح ہیں، اس کے باوجود مغربی ممالک اسرائیل اور بھارت پر پوری نیک نیتی سے دباؤ نہیں ڈالتے، اس میں خود اسلامی ممالک کی کمزوری ہے کہ یہ سب مغرب ہی کے مرہون منت ہو گئے ہیں۔ کہنے کو تو اسلامی کانفرنس کے نام سے تنظیم موجود ہے۔ اس میں کشمیر کے نام سے بھی گروپ موجود ہے اور فلسطینیوں کے حق میں بھی متفقہ قرار دادیں پاس ہو چکی ہوئی ہیں اس کے باوجود ان مظلوموں پر مظالم جاری ہیں۔
بھارت میں جب سے مودی برسر اقتدار آئے ہیں ایک مربوط پروگرام اور منصوبے کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔فلسطین کے حق اور فلسطینیوں پر مظالم کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے لیکن صدر بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ اسلامی کانفرنس ان بڑے مسائل کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام ہے دوسری طرف دنیا میں خود مسلمان آپس میں ہی دست و گریبان ہیں اور اسلامی کانفرنس کے ممالک کے درمیان بھی اختلافات موجود ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ یہ ممالک جو دنیا میں بڑی قوت ہیں اپنی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کا جائزہ لیں۔ ان کو حالات کے مطابق ڈھالیں اور مظلوموں کے لئے موثر آواز بلند کریں، اس سلسلے میں کوئی تو ایسی ٹھوس کوشش ہونی چاہئے کہ خود اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات ختم ہوں اور یہ جنگیں بھی تمام ہوں جو مسلمانوں ہی کے درمیان ہو رہی ہیں اور دہشتگردی کے حوالے سے بڑے ممالک ان میں ملوث ہیں۔ دونوں اطراف سے مسلمان ہی مر رہے ہیں۔ اللہ کرے کشمیریوں کا خون ہی رنگ لائے اور دنیا کا ضمیر جاگے!
اس سلسلے میں امریکہ کا کردار کافی اہم مانا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ امریکی انتخابات کے نتیجے میں جو بندہ صدر منتخب ہو گیا اس کے کارنامے روز بروز عیاں ہو رہے ہیں، یہ شخص ٹرمپ اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرچکاحتیٰ کہ امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی پر بھی رضامند ہے۔ وہ تو شاید خود اسرائیلی رویئے کے باعث تھوڑی تاخیر ہو گئی ہے۔ اسی طرح اس ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ بڑھا لیا ہے، حتیٰ کہ سب سے پہلی دعوت بھی مودی کو دی کہ وہ امریکہ یاترا کریں۔ ایسے میں اس ملک سے توقعات وابستہ کرنا عبث ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ کشمیریوں کے موقف کے حق میں اور ان پر مظالم کے خلاف اب زیادہ بلند کا آہنگ سے آواز اٹھانا ہو گی۔ پاکستان کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو شکوہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کو کام سے کس نے روکا ہے؟ وہ قوم کو جواب دہ ہیں تو جواب دیں، حکومت کو بھی اس طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے، تنازعہ کشمیر بھی ان ملکی مسائل میں سے ہے جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ فقط طریق کار میں کوئی اختلاف ممکن ہے اسے ایک اچھی اور نمائندہ گول میز کانفرنس سے دور کیا جا سکتا ہے۔
ویسے ضروری ہے کہ کسی زیادہ با اثر اور بین الاقوامی امور کے ماہر اور جانے پہچانے منتخب رکن کو چیئرمین کشمیر کمیٹی بنایا جائے کہ اس کمیٹی کا کردار اہم ہے۔ مولانا کو خود ہی دستبردار ہو جانا چاہئے۔ اب تاخیر غلط ہو گی۔ادھر سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی طرف سے ڈپٹی چیئرمین غفور حیدری کے امریکہ کے ویزے میں تاخیر اور ممکنہ انکار پر جو موقف اختیار کیا گیا اس کی تعریف کی جا رہی ہے۔ بہرحال یہ ایک خودمختار ملک کے قومی موقف کے مطابق ہے، تاہم ایک آدھ آواز ایسی بھی ہے جس نے اسے زیادہ سخت قرار دیا ہے لیکن مجموعی طور پر قوم ایسا ہی رویہ چاہتی ہے۔ یوں بھی یہ اطلاع ہے کہ ویزے کا مسئلہ حل ہونے والا ہے۔