کیا لاہور میں پولیس کو ٹارگٹ کر کے دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
پنجاب اسمبلی کے سامنے شاہراہِ قائداعظمؒ پر خود کش بمبار کا ٹارگٹ کون تھا؟ کیا پولیس افسروں کو ہی نشانہ بنانا مقصود تھا یا وہ بائی چانس نشانہ بن گئے؟ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ وزارت داخلہ نے پنجاب میں دہشت گردی کے کسی بڑے واقعہ کے متعلق پہلے سے خبردار کر رکھا تھا، یہ سانحہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مجموعی طور پر دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوئی ہیں اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے تو کیا یہ مایوس عناصر کی کارروائی ہے جنہوں نے بغیر بڑی منصوبہ بندی کے کسی خودکش بمبار کو احتجاجی مظاہرے میں بھیج دیا جو پنجاب ڈرگ ترمیمی بل کے خلاف کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ شاہراہِ قائداعظمؒ پر لاہور ہائی کورٹ نے مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو پھر اس سلسلے میں نرم رویہ کیوں اختیار کیا گیا اور مظاہرے کے منتظمین کو اس ضمن میں عدالتی حکم سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اعلیٰ پولیس افسر ہر جگہ ٹارگٹ ہیں، کہیں وہ دہشت گردوں کا نشانہ ہیں تو کہیں سیاسی بنیادوں پر سیاسی قوتوں کا بھی ہدف ہیں، کراچی میں گزشتہ چند دن سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا کراچی میں دہشت گردی لوٹ کر آرہی ہے یا پھر اس کے پس منظر میں کوئی نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ چند روز قبل سندھ کے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ نے کراچی چیمبر میں خطاب کرتے ہوئے بڑی فکر انگیز باتیں کی تھیں، جو بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئی ہوں گی، اسی لئے انہیں ایک بار پھر اصرار کے ساتھ یہ کہنا پڑا کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ اس پر قائم ہیں۔ انہوں نے کراچی چیمبر میں اپنی تقریر کے بعض فقرے من و عن دہرا دئے۔ گویا اپنے موقف پر ڈٹ گئے۔ گزشتہ روز کراچی میں چند منٹ کے وقفے سے پولیس اور ایک ٹی وی چینل کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس وین پر حملے سے تو کوئی نقصان نہ ہوا لیکن ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وین پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے ٹی وی کا کیمرہ مین جاں بحق ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس اور میڈیا کو بیک وقت نشانہ بنایا گیا تھا؟ اور اگلے ہی روز لاہور میں پولیس افسروں کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا۔ بظاہر کراچی اور لاہور کے واقعات میں کوئی براہ راست تعلق نظر نہیں آتا لیکن کیا ان دونوں واقعات میں دہشت گردوں کا کوئی ایسا گروہ تو ملوث نہیں جس نے ملک کے دو بڑے شہروں میں بیک وقت پولیس کو ٹارگٹ کیا ہے؟
کراچی میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی ایک تقریر کی بازگشت ابھی تک سنی جا رہی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پولیس نے اپنے بل بوتے پر کسی دوسرے سیکیورٹی ادارے کی مدد کے بغیر 96ء کا آپریشن کیا تھا لیکن اس کے نتائج ضائع ہوگئے اور ان تمام پولیس افسروں اور اہلکاروں کو چن چن کر مار دیا گیا جو اس آپریشن میں شریک تھے۔ اس کے بعد پولیس کا مورال ڈاؤن تھا، اس لئے کراچی میں رینجرز کو بلانا پڑا، جو اب تک 25 سال سے زائد عرصے سے موجود ہے۔ انہوں نے اپنا یہ موقف بھی دہرایا کہ 1861ء کے پولیس ایکٹ کے ذریعے اکیسویں صدی میں جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ نیا قانون ایسا ہونا چاہئے کہ پولیس پر سیاسی دباؤ نہ ہو، لیکن ایسے ہی دباؤ کی وجہ سے تو انہیں آئی جی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اگر سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں لے کر نہ گئے ہوتے تو عین ممکن تھا وہ اس وقت سندھ سے باہر کسی اور جگہ فرائض انجام دے رہے ہوتے، کیونکہ انہوں نے جو دس ہزار پولیس اہلکار کسی سیاسی مداخلت کے بغیر بھرتی کرلئے ہیں، وہ بعض سیاسی قوتوں، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور خود سندھ کی حکومت کو ہضم نہیں ہو رہے۔ طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ پولیس کی اتنے وسیع پیمانے پر بھرتی بغیر کسی سفارش کے اور میرٹ پر ہوئی تھی، بھرتی ہونے والوں کو کوئی رشوت بھی نہیں دینا پڑی لیکن یہی وہ خوبی ہے جو بعض سیاستدانوں کے نزدیک خرابی بن گئی ہے۔ ان بھرتیوں کا نوٹیفکیشن تو جاری نہیں ہوا لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ ان بھرتیوں کے ذریعے الیکشن میں فائدہ اٹھانا مقصود تھا اور بھرتی اس وقت ہونی تھی جب اگلے الیکشن بالکل قریب آچکے ہوتے تاکہ انتخابات میں کیش کرایا جاسکتا۔ اب اے ڈی خواجہ کی موجودگی میں تو بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اے ڈی خواجہ کی شہرت یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی رہے، داستان چھوڑ آئے۔ چنانچہ جب ان کا تبادلہ ہوا تو عام لوگ دکھی ہوئے اور اگر ممکن ہوا تو کہیں کہیں ان کے حق میں مظاہرہ بھی کر دیا گیا لیکن جرائم پیشہ افراد نے جشن منایا، ان کی دوسری شہرت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کسی عزیز یا دوست کو اپنے عہدے کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی اور اگر کسی کے متعلق شکایت ملی تو اس کا قانونی طور پر ازالہ کیا گیا جب کہ سندھ میں تو پولیس افسروں کو گنے کی خریداری تک کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اے ڈی خواجہ نے اپنے ماتحتوں کو بھی اس سے روک دیا تھا۔ چنانچہ شوگر کنگ نے ان کا تبادلہ کرا دیا، اور اس سے پہلے دھمکی بھی دے دی جس کے خلاف پہلی مرتبہ عام شہری عدالت میں گئے اور یوں ان کا تبادلہ رک گیا لیکن کسی نہ کسی موقعہ پر تو دوبارہ تبادلہ بھی ہوسکتا ہے۔
لاہور میں دھماکہ ایک ایسے احتجاجی مظاہرے میں ہوا جو پنجاب میں جعلی ادویات کے خلاف سخت اقدامات کے خلاف کیا جا رہا تھا اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سانحہ کے نتیجے میں یہ مہم وقتی طور پر دب جائے گی یا پھر چلتی رہے گی۔ جعلی ادویات کا کاروبار اتنا گھناؤنا ہے کہ کوئی بھی اس کی حمایت نہیں کرسکتا، لیکن جو لوگ یہ کاروبار کرتے ہیں، کیا وہ اتنی آسانی سے یہ دھندا چھوڑ دینے پر آمادہ ہوجائیں گے؟
ٹارگٹ کون؟
Back