حکومرت قبل ازوقت سینیٹ انتخابات کا آپشن استعمال کر سکتی ہے
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
بعض حلقوں کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر مارچ میں سینٹ کے انتخابات بخیر و خوبی ہوگئے تو پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوجائیگی، اس لئے مختلف مطبخوں میں ایسی کھچڑیاں پکائی جارہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سینٹ کے انتخابات کو بروقت منعقد ہونے سے روکا جائے۔ اس کیلئے کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت کی تھیوری سامنے لائی جاتی ہے اور کبھی اس آئینی بحران کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے، جو بظاہر تو کہیں نظر نہیں آتا لیکن تخیلات کی دنیا میں اس کے ہیولے تراشے جاتے ہیں پھر ان ہیولوں کی بنیاد پر قیاس کے گھوڑے سرپٹ دوڑائے جارہے ہیں، پہلے تو ان گھڑ سواروں کو مکمل یقین تھا کہ ادھر نواز شریف نا اہل ہوئے اور ادھر جماعت چھوڑنے والوں کی لائن لگ جائیگی چنانچہ ہر کوئی یہ پیشن گوئی کرنے لگا کہ پارٹی چھوڑنے والوں کی لائن کتنی لمبی ہوگی کسی کا خیال تھا کہ یہ ساٹھ لوگ ہوں گے کوئی یہ دور کی کوڑی لایا کہ ستر نے تو ان سے باقاعدہ رابطہ کرلیا ہے، ایک بزرگ نے، جنہیں نواز شریف کی دوسری حکومت میں گورنر بنانے کا احسان کیا گیا تھا کہا کہ اسی بندے ٹوٹنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، جس طرح تعداد میں اختلاف تھا اسی طرح پارٹی چھوڑنے والوں کے بارے میں تاریخیں بھی دی جارہی تھیں بعض کا خیال تھا کہ یہ حادثہ اگست کے اندر اندر رونما ہوجائیگا، اگست گذر گیا تو ستمبر کی تاریخیں دی جانے لگیں، مہینے تو آخر گذرنے ہی ہوتے ہیں جب ستمبر ماضی کا حصہ بنا اور اکتوبر آگیا تو ایک سینئر اینکر نے 72 گھنٹے کی پیشن گوئی کردی، اب نومبر بھی نصف کے قریب گذر رہا ہے تو اس ضمن میں مایوسی بڑھ گئی ہے اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ فارورڈ بلاک بنانے کی آخر جلدی کیا ہے جب ضرورت ہوگی اور سیٹی بجے گی تو بنا بنایا فارورڈ بلاک سامنے آجائیگا، جب اس سے بھی بات نہ بنی تو اب یہ شوشا چھوڑا جارہا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو کہا جائیگا کہ وہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں، اور چونکہ مسلم لیگ ن کے اندر پھوٹ پڑی ہوئی ہے اس لئے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے میں مشکل ہوگی اس لئے انہیں حکومت چھوڑنا پڑے گی، انہیں غالباً اس آئینی آرٹیکل کا علم نہیں کہ وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور اگر اس مشورے کے 48 گھنٹے گذرنے تک صدر اسمبلی نہ توڑیں تو یہ مدت گذرنے پر اسمبلی خود بخود تحلیل ہوجاتی ہے، معلوم نہیں کہ وزیراعظم یہ اختیار استعمال کرتے ہیں یا نہیں لیکن اگر کردیں تو کیا تمام جماعتیں نوے دن کے اندر انتخابات کیلئے تیار ہیں؟ عمران خان اگرچہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن یہ یقینی نہیں کہ ان کے اپنے وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی توڑیں گے یا نہیں، باقی صوبے تو مدت پوری کرنے کے حق میں ہیں، اس لئے افواہیں اڑانے والے سرگرم ہیں۔ کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہو پائیں گے حالانکہ حکومت کے پاس سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت کرانے کا آپشن بھی موجود ہے، اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان موجود ہوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ اپنا کردار ادا کررہے ہوں تو حکومت سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت بھی منعقد کراسکتی ہے، اس لئے با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ قیاس آرائیوں کا راستہ بند کرنے کیلئے حکومت سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت بھی کراسکتی ہے۔
مارچ میں ہر صوبے کے ان گیارہ ارکانِ سینیٹ کی رکنیت ختم ہوجائیگی جو چھ سالہ مدت پوری کرلیں گے ان کی جگہ متعلقہ صوبائی اسمبلی نے نئے ارکان کا انتخاب کرنا ہے اس وقت الیکٹورل کالج مکمل ہے، تمام صوبائی اسمبلیاں کام کررہی ہیں جو اپنے اپنے صوبوں کے ارکان کا انتخاب کریں گی، قومی اسمبلی فاٹا اور وفاقی دارالحکومت کے ارکان کا انتخاب کرے گا اس لئے یہ امکان ہے کہ جنوری کے شروع میں سینیٹ کے انتخابات کرا دئے جائیں، البتہ نو منتخب ارکان اس وقت حلف اٹھائیں گے جب مدت پوری کرنے والے ارکان ریٹائر ہوجائیں گے، جنوری میں انتخابات ہوگئے تو ان افواہوں کا راستہ بھی رک جائیگا کہ سینیٹ کا انتخاب روکنے کیلئے اس سے پہلے نگران سیٹ بنا دیا جائیگا، عام خیال یہ ہے کہ اگر ایک بھی صوبائی اسمبلی وجود نہ رکھتی ہے تو پورے سینیٹ کا انتخاب رک جاتا ہے، آئینی ماہرین کے مطابق ایسا بالکل نہیں جو اسمبلی وجود نہیں رکھتی اس کا انتخاب بعد میں بھی ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر اگر کسی ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنی اسمبلی توڑ دے تو اس کا باقی تین صوبوں کے سینیٹ انتخاب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور ان کے انتخابات ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے اگر قبل از وقت سینیٹ انتخابات کا ڈول ڈال دیا تو بہت سی افواہیں دم توڑ جائیں گی البتہ نئی افواہیں تراشنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے یار لوگوں کو تو کوئی نہ کوئی بہانہ درکار ہوگا۔
ویسے سینیٹ کے متعلق یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر کسی جماعت کی حکومت قائم ہو اور اسے سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ بھی ہو تو بھی حکومت چلتی رہتی ہے موجودہ حکومت بھی سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود گذشتہ ساڑھے چار سال سے چل رہی ہے اس حکومت کو جو مختلف قسم کی مشکلات در پیش ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ سینیٹ میں اکثریت نہیں رکھتی، سینیٹ میں اکثریت کے باوجود ایسی مشکلات درپیش ہوتی ہیں اگر حکومت کوئی بل سینیٹ سے منظور نہ کراسکے تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر بھی یہ بل منظور کرایا جاسکتا ہے، عمران خان گذشتہ کئی ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ اگلی حکومت ان کی بنے گی فرض کریں اگر ایسا ہوجائے تو ان کے پاس کون سی سینیٹ کی اکثریت ہوگی؟ اگر وہ اس کے باوجود حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں تو جو حکومت پہلے سے قائم ہے اس کے پاس بھی تو بہت سے راستے کھلے ہیں اس لئے جو لوگ سینیٹ کے الیکشن سے پہلے حکومت کے جانے کی پیش گوئیاں طویل عرصے سے کررہے ہیں ان کی خواہش تو ضرور ہوسکتی ہے، معروضی حالات سے اس کا کوئی زیادہ تعلق نظر نہیں آتا۔
سینٹ انتخابات