تین کی بجائےایک ریفرنس ،کیا نواز شریف کا موقف مان لیا جائے گا
تجزیہ -:سعید چودھری
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت میں ان کے خلاف جو 3ریفرنس دائر کئے گئے ہیں ان پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کا الزام ہے ،ایک ہی الزام میں تین ریفرنس دائر نہیں ہوسکتے ۔تین ریفرنس دائر کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا جائے ۔میاں محمد نوازشریف کے اس موقف کو سپریم کورٹ میں کس قدر پذیرائی ملنے کا امکان ہے ؟ اور دوسرا یہ کہ احتساب عدالت میں میاں محمد نوازشریف ،ان کی بیٹی ،بیٹوں اور داماد کے خلاف دائر ریفرنسوں میں تاحال فرد جرم عائد کرنے کی نوبت نہیں آئی ہے اگر احتساب عدالت سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کی گئی ڈیڈ لائن کے اندر ان کیسوں کا فیصلہ نہ کرسکے تو پھر اس کی کارروائی کی کیا قانونی حیثیت ہوگی اور کیا سپریم کورٹ احتساب عدالت کے جج کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لاسکتی ہے ؟سپریم کورٹ کے 28جولائی کے حکم کی روشنی میں قومی احتساب بیورو نے 7ستمبر کو احتساب عدالت میں 3ریفرنس دائر کئے جن میں عزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس شامل ہیں ۔میاں محمد نوازشریف کا موقف ہے کہ ان پر نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(اے)5کا نفاذ کیا گیا ہے جو ظاہر کی گئی آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے سے متعلق ہے ۔نیب آرڈیننس مجریہ 1999ء کا اطلاق 1985ء سے کیا گیا ہے یہ اس ملک کا دوسرا قانون ہے جسے موثر بہ ماضی قرار دیا گیا ہے ۔اس سے قبل سنگین غداری کے قانون کوزبردستی آئین سبوتاژ کرنے کے ماضی کے اقدامات پر بھی منطبق کیا گیا ۔آئینی طور پرایک جرم پر ایک سے زیادہ مرتبہ سزا نہیں دی جاسکتی ،دوہری سزا سے تحفظ بنیادی آئینی حقوق کا حصہ ہے ۔بادی النظر میں میاں محمد نوازشریف کے موقف میں وزن ہے ،1985ء سے آج تک اگر الزام کی نوعیت ایک ہی ہو تو پھر ایک ہی ریفرنس دائر ہونا چاہیے تاہم نیب آرڈیننس میں سیکشن 9(اے)5کے علاوہ بھی کئی ایک سیکشن ہیں جن کا میاں محمد نوازشریف اور ان کے بچوں پر اطلاق کیا گیا ہے ،جن میں کرپشن ،بددیانتی اور فراڈ سے جائیداد بنانے کا سیکشن بھی شامل ہے ۔مالی جرائم سے متعلق قوانین میں مخصوص مدت کے اندر وقوع پذیر جرم پر ایک ہی مقدمہ چلانا ایک طے شدہ اصول رہا ہے ۔جیسا کہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 222میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک سال کی مدت کے اندر اگر کوئی شخص فراڈ کے مختلف واقعات میں ملوث پایا جائے تو اس کاایک ہی ٹرائل ہوگا ۔اسی طرح مختلف لوگوں سے فراڈ کے ذریعے بھاری رقوم ہتھیانے والوں کے خلاف ایک ہی ریفرنس دائر ہوتا ہے ،وصول کی گئی ہر ایک رقم کے عوض الگ ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا ۔قومی احتساب بیورو نے میاں محمد نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف جو تین ریفرنس دائر کررکھے ہیں ان میں "کازآف ایکشن "الگ الگ ہیں ،جیسا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف الگ الگ بنیادوں پر ریفرنس دائر کئے گئے تھے ۔الگ کاز آف ایکشن کے اصول کو مد نظر رکھا جائے تو میاں محمد نوازشریف کی مذکورہ درخواست کو سپریم کورٹ سے پذیرائی ملنا مشکل نظر آرہا ہے ۔ معاملہ صرف نیب آرڈیننس کے سیکشن9(اے)5کی حد تک ہوتا تو سپریم کورٹ سے دادرسی کاغالب امکان موجود تھاجبکہ نیب نے جو تین ریفرنس دائر کئے ہیں ان میں "بر بنائے کارروائی "ایک ہی نہیں ہے ۔جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ کیا احتساب عدالت سپریم کورٹ کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن عبور کرسکتی ہے ؟ نیب آرڈیننس کے سیکشن16(اے)میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ ریفرنس کی سماعت کرکے 30روز کے اندر فیصلہ سنائے گی ،اسی طرح اس آرڈیننس کے سیکشن32(بی)میں ہائی کورٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ اپیل کا 30روز میں فیصلہ کیا جائے گا۔پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے لئے نوازشریف خاندان کے خلاف ریفرنسوں کا فیصلہ کرنے کے لئے 6ماہ کی مدت مقرر کی ہے اور یہ مدت 8ستمبر سے شروع ہوتی ہے ۔آئین کے آرٹیکل 199(4اے)میں وضاحت کی گئی ہے کہ سرکاری محاصل کی وصولی یا سرکاری املاک سے متعلق معاملہ پرہائی کورٹس کا حکم امتناعی صرف 6ماہ کے لئے موثر ہوگا، اس بابت یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ عدالت ایسے مقدمات کا 6ماہ کے اندر فیصلہ کرے گی ۔ظہور ٹیکسٹائل کیس میں پہلے لاہور ہائی کورٹ اورپھر سپریم کورٹ نے یہ حکم جاری کیا کہ عدالت پر فیصلہ کرنے کے لئے معیاد کی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ۔آج تک نیب آرڈنینس کے سیکشن 16(اے)اور 32(بی)کے تحت کسی احتساب عدالت اور ہائی کورٹ نے 30دن کے اندر ریفرنس یا اپیل کا فیصلہ نہیں کیا۔سپریم کورٹ نے میاں منظور احمد وٹو کیس میں بھی لاہور ہائی کورٹ کو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم جاری کیا تھا تاہم عدالت عالیہ نے چند ایک سماعتوں کے بعد اس کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا تھا اور پھر موسم گرما کی تعطیلات کے بعد اس کی دوبارہ سماعت کی تھی ۔ان نظائر اور مذکورہ قوانین کو دیکھا جائے تو احتساب عدالت نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف دائر ریفرنسوں کے فیصلہ کے لئے سپریم کورٹ کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن عبور کرسکتی ہے ،اگر حالات کے تابع احتساب عدالت ایسا کرنے پر مجبور ہو اور ناگزیر وجوہات کی بنا پر 6ماہ میں کیس کا فیصلہ نہ کرپائی تو یہ توہین عدالت کے زمرہ میں آئے گااور نہ ہی متعلقہ جج کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔