اخباری بیانات کے ذریعے آرٹیکل 63,62کا اطلاق ججوں اور جرنیلوں پر نہیں ہوسکتا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
جب سے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نوازشریف سپرم کورٹ کے حکم سے نااہل ہوئے ہیں امیر جماعت اسلامی سراج الحق بڑی شدومد سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ججوں، جرنیلوں اور بیورو کریٹس پر بھی یہ آرٹیکل نافذ کیا جائے۔ مطالبہ تو جائز ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اگر صرف مطالبہ کرنے سے یہ کام ہوسکتا تو اور بھی بہت سے لوگ یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتے تھے اور کئی حضرات پہلے سے ہی یہ کام کر بھی رہے ہیں لیکن مطالبات سے ایسا ہونا ممکن نہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے اس دفعہ کا اطلاق ان تمام حضرات پر کیا جائے جن کا ذکر سراج الحق اپنے بیانات میں اٹھتے بیٹھتے کر رہے ہیں۔ اس وقت تک تو یہی بات سامنے آئی ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان میں سے صرف ایک شخص تھا جو اس آرٹیکل پر پورا نہیں اترتا تھا اس لئے اسے نکال دیا گیا، اگر باقی حضرات اس کی زد میں آتے تو اب تک نکل چکے ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب آئین کی اس دفعہ کی مرضی و منشا پر پورے اترتے ہیں۔ سراج الحق کیلئے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے آئینی ترمیم کیلئے دوسری جماعتوں سے رابطہ کریں۔ اس مقصد کیلئے مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا تعاون درکار ہوگا، تبھی آئین میں ترمیم ہوسکے گی کیونکہ آئینی ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت سے ترمیم منظور ہوگی تو پھر صدر مملکت کے دستخطوں سے یہ ترمیم آئین کا حصہ بن سکے گی۔ ہمارے علم میں نہیں کہ سراج الحق نے اس مقصد کیلئے کسی ہوم ورک کا آغاز کردیا ہے یا نہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ کام نہیں ہونے والا۔ موجودہ آئین جب سے نافذ ہوا ہے اس میں جتنی بھی ترامیم ہوئی ہیں (سوائے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے) وہ سب حکمرانوں کی کسی نہ کسی سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ہوتی رہی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں اقتدار سنبھالا تو دو دفعہ الیکشن ملتوی کرنے کے بعد 85ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرائے، جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے، انہیں خود صدر ضیاء الحق نے نامزد کیا تھا بعد میں ارکان اسمبلی نے انہیں اعتماد کا ووٹ دے کر وزیراعظم منتخب کرلیا۔ ضیاء الحق نے بڑی سوچ بچار اور معلومات کے حصول کے بعد جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا تھا، ان کا یہ خیال تھا کہ وہ ان کے ممنون رہیں گے اور کاروبار مملکت میں ان کے مشوروں پر عمل کریں گے لیکن عہدہ سنبھالنے کے بعد جب وزیراعظم جونیجو جنرل ضیاء الحق کو ملنے کیلئے گئے تو کہا جاتا ہے انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں پوچھ لیا کہ جنرل صاحب ’’مارشل لا کب اٹھا رہے ہیں‘‘؟ اس سوال کا انہوں نے وزیراعظم کو تو جو بھی جواب دیا ہوگا لیکن بعد میں انہوں نے اپنے قریبی حلقے میں کہا کہ وزیراعظم کے انتخاب میں ان سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس ایک بات سے انہوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ اگلا سیاسی سفر زیادہ ہموار نہیں ہوگا۔
اس تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ جونیجو کے اس پہلے سوال کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کا پیکج اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ کیا، حاجی سیف اللہ مرحوم کہا کرتے تھے کہ انہوں نے بہت کوشش کی کہ صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار نہ دیا جائے اور اس مقصد کیلئے ارکان اسمبلی کو بھی قائل کرلیا کہ وہ (2) 58 بی کی شق منظور نہیں ہونے دیں گے لیکن جنرل ضیاء الحق اس بات پر اڑ گئے کہ اگر آٹھویں ترمیم اس شق سمیت منظور نہ ہوئی تو مارشل لاء نہیں اٹھایا جائے گا۔ چنانچہ سب نے دیکھا کہ مارشل لاء اسی وقت اٹھا اور آئین اسی وقت بحال ہوا جب صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار (2) 58 بی کے ذریعے حاصل ہوگیا اور انہوں نے تین سال بعد اس دفعہ کے تحت قومی اسمبلی توڑ دی اور جونیجو حکومت برطرف کردی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی آئینی ترمیم منظور کرانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، اس مقصد کیلئے سامنے کی کوششوں کے ساتھ پس پردہ دوڑ بھاگ بھی کرنی پڑتی ہے۔ نوازشریف جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے (2) 58 بی کی دفعہ آئین سے نکال دی کیونکہ ان کے پاس اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی اس لئے یہ ترمیم آسانی سے منظور ہوگئی لیکن جب جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت میں سترہویں ترمیم کے ذریعے اسمبلی توڑنے کا اختیار دوبارہ صدر کو دینے کا فیصلہ کیا اور ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کیلئے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) سے تفصیلی مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات کی تفصیلی کہانی جناب ایس ایم ظفر نے تحریر کی ہے جس کی تفصیلات خاصی دلچسپ ہیں۔ پرویز مشرف نے ایم ایم اے سے وعدہ کیا تھا کہ اگر سترہویں ترمیم منظور ہوگئی تو وہ وردی اتار دیں گے لیکن ترمیم کی منظوری کے باوجود انہوں نے وردی نہ اتاری۔ یہ وعدہ خلافیوں کی ایک دردناک داستان ہے ہم صرف یہ عرض کر رہے تھے کہ ججوں، جرنیلوں اور بیورو کریٹوں پر آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق کرنے کیلئے آئین میں ترمیم ضروری ہے اور جو حضرات یہ چاہتے ہیں انہیں اس مقصد کیلئے کوششیں کرنا ہوں گی۔ موجودہ پارلیمنٹ میں تو شاید یہ ممکن نہ ہو، اگلے انتخابات کے بعد معلوم نہیں پارلیمنٹ کی ہیئت ترکیبی کیا ہوتی ہے اور اس میں ان جماعتوں کے ارکان کی تعداد کتنی ہوتی ہے جو اس آرٹیکل کا اطلاق سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ججوں پر بھی کرنا چاہتے ہیں اس وقت جو حضرات بھی اس ضمن میں بیانات دے رہے ہیں، ان کی حیثیت عمران خان کے اس بیان سے زیادہ نہیں ہے جس میں وہ کہتے رہے کہ نجم سیٹھی نے الیکشن میں 35 پنکچر لگائے تھے۔ مطلب تھا ان حلقوں مین دھاندلی کرائی تھی لیکن جب دھاندلی کی تحقیقات کا کمیشن بنا تو اس میں اس الزام کا سرے سے ذکر ہی نہ تھا۔ عمران خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے سادگی سے کہہ دیا ’’یہ تو ایک سیاسی بیان تھا‘‘۔ کیا سراج الحق بھی ایک سیاسی بیان دے رہے ہیں؟
اخباری بیانات