احتجاج اور دھمکیوں کے شور میں ڈاکٹر عاصم کو بیرون ملک جانے کی اجازت

احتجاج اور دھمکیوں کے شور میں ڈاکٹر عاصم کو بیرون ملک جانے کی اجازت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
 سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بالآخر منا ہی لیا ہے جو گزشتہ روز اس بات پر ناراض ہوکر گھر چلے گئے تھے کہ وزرأ ایوان میں نہیں آتے اور سینیٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اپوزیشن ارکان تحریک التوا پیش کرتے ہیں تو متعلقہ وزیر اس کا جواب دینے کے لئے ایوان میں موجود نہیں ہوتے۔ اسی طرح سوالات کا جواب بھی بروقت نہیں ملتا۔ اگرچہ وزرأ کی حاضری کے حوالے سے اس سے ملتی جلتی کیفیت قومی اسمبلی میں بھی ہے اور سپیکر ایاز صادق کو بھی حاضری کے حوالے سے شکایات ہوسکتی ہیں۔ تاہم وہ ایوان کو چلا رہے ہیں لیکن جب رضا ربانی کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو وہ اٹھ کر گھر چلے گئے اور یہ تک کہہ گزرے کہ وہ استعفا بھی دے سکتے ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئی، بطور چیئرمین رضا ربانی کا یہ تیسرا برس جاری ہے، ان کے عہدے کی میعاد اگلے برس مارچ میں ختم ہو جائے گی۔ جب سینیٹ کی آدھی نشستوں پر انتخاب ہوں گے۔ موجودہ اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں نئے گیارہ ارکان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔ اس لئے ممکنہ طور پر ایوان بالا میں بھی اس کی اکثریت ہو جائے گی اور وہ اپنا چیئرمین منتخب کرانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ 2015ء میں جب رضا ربانی چیئرمین منتخب ہوئے تھے اس وقت سینیٹ میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت تھی اور اس نے دوسری جماعتوں کے تعاون سے اپنا چیئرمین منتخب کرالیا تھا، جبکہ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے۔ دو مرتبہ فوجی عدالتوں کا معاملہ سینیٹ میں پیش ہوا، دونوں بار ہی رضا ربانی کے فوجی عدالتوں کے بارے میں ذاتی تحفظات تھے، تاہم پیپلز پارٹی نے دونوں بار فوجی عدالتوں کی حمایت کی، اس بار تو رضا ربانی چیئرمیں تھے۔ پہلی مرتبہ جب فوجی عدالتوں کا معاملہ ایوان میں آیا تو وہ قائد حزب اختلاف تھے اور فوجی عدالتوں کے معاملے پر اتنے جذباتی ہوگئے تھے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ تاہم یہ آنسو فوجی عدالتوں کا راستہ نہ روک سکے کیونکہ حکمران جماعت اور پیپلز پارٹی کے درمیان اس معاملے پر اتفاق رائے ہوچکا تھا، اب کی بار پیپلز پارٹی نے اگرچہ بعض شرائط رکھیں۔ تاہم پھر ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے اصول پر فیصلہ یہی ہوا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کے لئے درکار آئینی ترمیم کی حمایت کی جائے گی۔ چیئرمین رضا ربانی اب بھی اپنے تحفظات رکھتے تھے۔ پارٹی پالیسی اب کی بار بھی آڑے آگئی، سندھ میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ پھر درپیش ہے، اور ابھی چند روز تک اس معاملے پر بحث مباحثہ ہوگا جس کے بعد امید ہے اختیارات میں اسی طرح توسیع ہو جائے گی۔ جس طرح پہلے ہوتی رہی ہے۔ دو روز پہلے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اسمبلی میں وفاقی حکومت پر خاصے گرجے برسے تھے اور انہوں نے گیس بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ کراچی میں سوئی سدرن گیس کے دفاتر پر بھی قبضہ کرلیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت جو صوبہ گیس پیدا کرتا ہے، اس کا حق مقدم ہے جب کہ وفاق نے نہ تو صوبے کے اس حق کو کبھی چیلنج کیا ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے ایسا کوئی عندیہ دیا تھا، البتہ پنجاب میں گیس کنکشن پر جو پابندی عرصے سے عائد تھی وہ اٹھانے کا اعلان کیا تھا، یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ کسی صوبے کا حق مار کر پنجاب کو گیس نہیں دی جائیگی بلکہ درآمدی گیس میں سے پنجاب کو گیس دی جائے گی، اب آئین میں یہ وضاحت تو کہیں نہیں ہے کہ ملکی ضرورت کیلئے جو گیس درآمد ہوگی اس کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوگی، یہ کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں ہے جو لاینحل ہو، اگر کوئی اختلاف ہے، تو اسے بیٹھ کر طے کیا جاسکتا ہے، پنجاب کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد ہے یعنی باقی تینوں صوبے مل کر 44 فیصد آبادی بنتے ہیں لیکن پنجاب کو گیس کی پیداوار کا 38 فیصد ملتا ہے، جب لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو پنجاب میں بھی گھریلو صارفین تک متاثر ہوتے ہیں دراصل یہ معاملہ ایک نجی بجلی گھر کو گیس نہ ملنے کا شاخسانہ ہے جو ایک سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوئی سدرن کا کہنا ہے کہ زرضمانت کی مد میں ایک ارب روپیہ ادا کیا جائے تو اس بجلی گھر کو گیس دی جاسکتی ہے اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اتنی رقم کی بنک گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ اب یہ کمپنی پر منحصر ہے کہ وہ بینک گارنٹی لے یا نقد رقم، لیکن اس میں وزیراعلیٰ کی دلچسپی کا پہلو یہ نہیں ہے کہ نجی ملکیت کا یہ ادارہ بینک گارنٹی دیتا ہے یا نقد رقم۔ وزیراعلیٰ کو دلچسپی اس لئے ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے اس پراجیکٹ میں 51 فیصد حصص کی ملکیت آصف علی زرداری کی بتائی جاتی ہے۔ غالباً اسی لئے ہفتے کے روز سندھ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ کی تعریف کر دی لیکن کابینہ کے وزیروں کو کھری کھری سنا دیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس پر کابینہ کے ارکان کا ردعمل کیا تھا تاہم بلاول نے وزیروں سے کہا کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں۔ دیکھیں اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔
رضا ربانی کے احتجاج اور وزیراعلیٰ سندھ کی دھمکیوں کی گرما گرمی میں ایک مثبت بات یہ ہوئی ہے کہ بیمار ڈاکٹر عاصم کو بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ اجازت پندرہ دن کیلئے دی گئی ہے لیکن صحت کا کیا بھروسہ ہے، اگر یہ بہتر نہ ہوئی تو ڈاکٹر عاصم وہیں سے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھیج کر بیرون ملک قیام میں توسیع کراسکتے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی مثال موجود ہے وہ بھی علاج کیلئے بیرون ملک گئے تھے یہاں ان پر مقدمات چل رہے ہیں جن کی سماعت رکی ہوئی ہے، وہ وہاں سیاسی اتحاد بنانے کیلئے اپنے حلیفوں کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے ہیں، بیماری کی حالت میں پندرہ گھنٹے کی فلائٹ پر دبئی سے امریکہ چلے جاتے ہیں لیکن دو گھنٹے کے فاصلے پر کراچی نہیں آتے۔ ڈاکٹر عاصم بھی اگر ایسی ہی ترکیب استعمال کرلیں گے تو انہیں کون روک لے گا؟ اس خدشہ کا اظہار عدالت کے روبرو رینجرز کے وکیل نے کیا تھا کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو وہ واپس نہیں آئیں گے جس پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ان کے کراچی میں کئی ہسپتال ہیں، لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب ہسپتالوں میں ہر کسی کا علاج تو ہوسکتا ہے لیکن خود ڈاکٹر صاحب کو بیرون ملک علاج کی ضرورت پڑتی ہے اور اتنے سارے ہسپتال مل کر بھی ان کا علاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بہرحال اب وہ جا رہے ہیں وہ آتے ہیں یا نہیں آتے یہ تو وقت بتائے گا لیکن عرصے سے وہ جو جدوجہد کر رہے تھے وہ اب کامیاب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک زمانے میں تو وہ اتنے مایوس تھے کہ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے کہ رہا ہو کر سیاست نہیں کریں گے لیکن اب شاید وہ یہ ارادہ بھی بدل ہی لیں گے۔
اجازت

مزید :

تجزیہ -