جنرل قمر جاوید باجوہ کا عزم، پی ایس ایل فائنل لاہور ہی میں ہو گا
تجزیہ: چودھری خادم حسین:
نصیب اچھے ہوں تو ہر رکاوٹ دور ہوتی اور مخالفت کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی، پی ایس ایل میں فکسنگ کا مسئلہ سامنے آ گیا، کرکٹر تو زد میں آئے ساتھ ہی منتظمین بھی ہدفِ تنقید تھے خصوصاً اس پاکستان سپر لیگ کے چیئرمین نجم سیٹھی نشانہ بنے ، حتیٰ کہ ان کے خلاف رٹ درخواست بھی دائر ہو چکی ہے،لیکن وہ بھی ماہر اور سمارٹ ہیں اور میڈیا سے متعلق اپنا اور بورڈ کا دفاع کرتے رہے، پہلے تو سپاٹ فکسنگ کو بھارتی سازش بنانے کی کوشش کی گئی، اس میں حقیقت نظر آنے لگی کہ کھیلوں پر جوئے کا بڑا نیٹ ورک بھارت میں ہے اور لوگ بہت زیادہ داؤ بھی لگاتے ہیں۔بہرحال توجہ اِس طرف تھی کہ بدقسمتی سے لاہور میں خود کش بم دھماکہ ہو گیا اور بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، دو پولیس افسروں کے علاوہ پولیس ملازمین اور شہری شہید ہوئے،جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی سو تک پہنچی ہے۔ یہ سانحہ ہوتے ہی محترم نے اپنے پروگرام کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ یہ بھارت کا کِیا دھرا ہے،مقصد پاکستان سپر لیگ کے فائنل پر حملہ ہے جو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کرایا جانا مقصود اور طے پا چکا ہے، بس پھر کیا تھا، میڈیا کو یہ اچھا لگا اور سب نے یہ موقف اختیار کر لیا حتیٰ کہ ہمارے آرمی چیف نے بھی یہی تاثر لیا اور انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے لئے سیکیورٹی کے مکمل انتظامات کئے جائیں، ہر قسم کا تعاون کیا جائے گا،محترم نجم سیٹھی سے زیادہ کون مطمئن ہو گا کہ ابتدا ہی میں ان کا موقف تسلیم کر لیا گیا، لیکن دھماکے کی خبروں کے بعد دبئی میں غیر ملکی کھلاڑیوں نے جو تاثر دیا، اس سے گھبرا گئے ہیں کہ وہ اب لاہور آنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے، چنانچہ وہ کہتے ہیں، اس کا فیصلہ اب عوام کریں کہ فائنل لاہور میں ہو یا نہیں، سبحان اللہ، کیا منطق ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف کی اتنی بڑی یقین دہانی کے بعد تو اب ہر صورت فائنل لاہور میں ہونا چاہئے کہ دشمن کو یہ معلوم ہو جائے کہ ایسے بم دھماکے اور بے گناہوں کے خون سے کھیلنے کے باوجود ہم خوفزدہ نہیں پُرعزم ہیں۔ جتنے غیر ملکی کھلاڑی راضی ہوں، ٹھیک، ورنہ پاکستان کے جوان تو ضرور کھیلیں گے، اِس لئے فائنل تو اب لاہور ہی میں ہونا ہے اور ہونا چاہئے۔
یہ تو ایک پہلو ہے،ہم اِس پر یقین نہیں رکھتے کہ کالعدم تنظیم نے یہ قدم صرف فائنل کے لئے اُٹھایا ہے۔ یہ درست کہ اس تنظیم اور اس کی سرپرست تحریک طالبان کی ’’را‘‘ سے مکمل ملی بھگت ہے اور ان کو سرمایہ بھارتی وسائل سے مہیا جا رہا ہے اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانے دہشت گردوں کو تحفظ بھی دے رہے ہیں،لیکن یہ نہیں کہ یہ دھماکہ محض پی ایس ایل کے لئے ہی کیا گیا۔ اس کے اثرات میں یہ شامل کر لیا گیا کوئی حرج نہیں، لیکن یہ سب مُلک کو غیر یقینی حالت میں مبتلا کرنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں دہشت گردوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اب وہ داعش سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادت کا فیصلہ بالکل درست ہے اور صحیح سمت اقدام ہے کہ اب پنجاب کے مخصوص علاقوں میں بھی آپریشن لازمی ہے، وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی قلع قمع کرنے کا کہا تو خود جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہدایت کر دی ہے کہ جنوبی پنجاب میں بھی آپریشن کیا جائے اور یہی وہ پہلو ہے جس پر مختلف اعتراضات اور دباؤ کے باوجود عمل نہیں ہو رہا تھا اور ابھی تک سارا زور مرکزی پنجاب کے دو تین شہروں تک تھا،جبکہ سیکیورٹی اداروں نے کئی بار اجازت مانگی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خصوصی طور پر سی ٹی ڈی کو یہ شکایت تھی کہ دہشت گرد شمال سے آ کر مدرسوں میں ٹھہرتے ہیں اور ان کو مدرسوں کی چیکنگ میں بہت دشواری ہوتی ہے۔اس سلسلے میں کئی بار سمری کی صورت میں رپورٹ بھی بھیجی گئی،لیکن کوئی صورت نہ بنی کہ مذہبی قوتیں طاقتور ہیں۔
اب جو یہ کہا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے وہ درست ہے کہ یہ سب کام کر رہے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کے بقول ان کے سہولت کار اور فکری معاونین بھی بہت بھاری تعداد میں ہیں، اب اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قوتیں باہمی طور پر ایک صفحہ پر آ گئی ہیں تو پھر سرگرم عمل اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعاون سے آپریشن بھی حقیقی ہونا چاہئے، تبھی وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کا کہنا پورا ہو گا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اِس سلسلے میں شہید احمد مبین کی جو غزل یا نظم فیس بُک کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے وہ بھی چشم کشا ہے اور اس میں بھی اسی پہلو کو اُجاگر کیا گیا کہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے اور علمائے کرام تمام تر فتوؤں کے باوجود عملی تعاون میں گریزاں ہیں،حالانکہ تمام تر مہم علمائے کرام کی طرف سے ہونی چاہئے کہ دہشت گرد خود کو سب سے بڑا مسلمان کہہ کر ہی کلمہ گو افراد کو مارتے ہیں۔
ادب سے گزارش مقصود ہے کہ خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ کی منطق سے پاکستانیوں کو اتفاق نہیں کہ حملہ آور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ ان حضرات کے لئے معہ خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ پہلے ہی ہائی الرٹ ہیں اور ان کی حفاظت کے بھی انتظامات ہیں۔ بقول خود خواجہ آصف انٹیلی جنس نے اطلاع بھی دی تھی اور وزیراعظم نے اپنا پروگرام تبدیل کیا۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق یہ حملہ90شاہراہ قائداعظم پر ہونا تھا، یقین مانئے، حملہ آور جس منصوبہ بندی سے آئے، وہ اتنے بیوقوف نہیں کہ ان کو90شاہراہ قائداعظم کا علم نہ ہو اور پھر وہاں کے حفاظتی انتظامات بھی ایسے ہیں کہ سب کچھ راستے ہی میں ہو جاتا یہ تو واضح ہے کہ خود کش بمبار نے پولیس کے قریب جا کر دھماکہ کیا، اِس لئے ایسے آئیڈیاز نہ دیں جو تسلیم نہ کئے جائیں۔ بہرحال خوش آئند یہ ہے کہ اب سیاسی اور عسکری قیادت متفق ہو کر پنجاب میں بھی صفائی کرنے آرہی ہیں یقیناًبہتر نتائج برآمد ہوں گے۔