صدر طیب اردوان ترکی کے نئے مرد آہن : میئر استنبول سے لے کر صدر تک کامیابیوں کا تسلسل

صدر طیب اردوان ترکی کے نئے مرد آہن : میئر استنبول سے لے کر صدر تک کامیابیوں کا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

ترکی میں صدر رجب طیب اردوان نے انتہائی اہمیت کا حامل وہ ریفرنڈم جیت لیا ہے جس کے بعد وہ صحیح معنوں میں مرد آہن بن کر ابھرے ہیں۔ ویسے تو گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت میں ان کے کردار نے ہی انہیں مضبوط اعصاب کا ایسا لیڈر ثابت کردیا تھا جس نے ہر مشکل موقع پر قائدانہ کردار ادا کیا۔ ناکام فوجی بغاوت کے دوران ایک مرحلے پر ان کا جہاز باغیوں کے نشانے پر تھا اور موت اور ناکامی چند ثانیوں کے فاصلے پر کھڑی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب و کامران کیا، ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) پہلی مرتبہ 2002ء میں برسر اقتدار آئی تھی۔ الیکشن میں اپنی جماعت کو کامیاب کرانے میں انہوں نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا تھا، انتخاب جیت کر وہ وزیراعظم بن گئے، اس وقت سے اب تک ان کی پارٹی برسر اقتدار ہے، 15 برس کے اس عرصے میں تبدیلی یہ آئی کہ اس سے پہلے وہ وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ کر صدر بن چکے ہیں۔ اس وقت بھی ترکی میں صدر کا عہدہ بہت طاقتور ہے اور وزیراعظم جو پارٹی کے سربراہ بھی ہیں صدر کے مقابلے میں کم اختیارات کے مالک ہیں ۔ اب وزیراعظم کا عہدہ ختم ہو جائے گا اور تمام اختیارات صدر کی ذات میں جمع ہو جائیں گے۔ ریفرنڈم جیتنے کے بعداب وہ ترکی کا نیا صدارتی نظام تشکیل دیں گے، اس سے پہلے کمال اتاترک کے سوا کوئی دوسرا لیڈر اتنے زیادہ اختیارات کا حامل نہیں رہا۔ بہت سے صدور کو فوج نے برطرف کردیا تھا کیونکہ اس وقت تک فوج کو حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل تھا تاہم ناکام فوجی بغاوت تو اپنی نوعیت کی ایک ایسی عدیم المثال کامیابی تھی جس کی کوئی نظیر ترکی کی تاریخ میں موجود نہیں تھی۔ ترک عوام جس طرح اردوان کی اپیل پر گھروں سے نکلے اور فوج کی مزاحمت کی اس کی بھی کوئی مثال اس سے پہلے ترکی میں موجود نہیں۔ اب اردوان نئے اختیارات سے لیس صدر بن کر ابھریں گے اور وزیراعظم بن علی یلدرم کو نائب صدر بنایا جائے گا۔ صدر اردوان نے یہ ریفرنڈم ترکی کے مستقبل اور ترقی کے نام پر جیتا ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ وہ نئے اختیارات سے لیس ہوکر ترکی کو عظیم ملک بنا دیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں نے جو ریفرنڈم کے خلاف بھرپور مہم چلا رہی تھیں اس نکتے پر زور دیا کہ وہ آمرانہ اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اگر انہیں ریفرنڈم میں کامیابی ہوئی تو وہ بدترین آمر بن جائیں گے۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کو ریفرنڈم میں اس لئے کامیابی نہیں ملی کہ طیب اردوان کے ساتھ یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ وہ ڈلیور کرنے والے لیڈر ہیں۔ 2002ء میں جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہیں ان کارناموں کی بدولت کامیابی حاصل ہوئی جو انہوں نے استنبول کے میئر کی حیثیت سے ڈلیور کئے تھے عجیب اتفاق ہے کہ ایران کے میئر محمود احمدی نژاد بھی دو مرتبہ ایران کے صدر رہے۔ چونکہ مسلسل تیسری بار کوئی ایرانی صدر الیکشن نہیں لڑسکتا اس لئے پچھلی بار وہ امیدوار نہیں تھے، اب پھر وہ صدارتی دوڑ میں شریک ہوچکے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے بطور میئر اپنے آپ کو منوایا اور صدارتی منصب تک پہنچے۔ یہ ڈلیور کرنے ہی کا نتیجہ تھا کہ رجب طیب اردوان کی اپیل پر لوگ فوج کی بغاوت ناکام بنانے کیلئے باہر نکل آئے اگرچہ بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد انہوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں، جرنیلوں سمیت اعلیٰ فوجی افسروں کو برطرف کیا، ججوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا، بیورو کریٹس کو گرفتار کیا، یونیورسٹی کے پروفیسروں کو ملازمتوں سے فارغ کیا، بعض کو سزائیں بھی سنائی گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ بغاوت کے پس پشت مذہبی سکالر فتح اللہ گولن کی تحریک تھی جس نے سماجی کاموں اور تعلیمی اداروں کے ذریعے ترکی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور خیراتی کاموں کے ذریعے عوام کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ اگرچہ فتح اللہ گولن نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ناکام بغاوت میں ان کا ہاتھ تھا اس کے باوجود صدر اردوان اس بارے میں یکسو ہیں کہ ناکام بغاوت فتح اللہ گولن کے ساتھیوں نے کرائی چنانچہ انہوں نے اس تحریک پر سختی شروع کردی اور امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ ابھی تک انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی تاہم وہ اپنے اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اردوان کا یہ بھی خیال ہے کہ گولن کو امریکہ کی حمایت اور ہمدردیاں حاصل تھیں اور امریکی سی آئی اے ان کے ساتھ تھی ناکام بغاوت کے بارے میں سب سے پہلے اطلاع انہیں روسی صدر پیوٹن نے دی تھی چنانچہ جونہی وہ بغاوت کے اثرات سے نکلے فوری طور پر اظہار تشکر کیلئے ماسکو گئے اور ماسکو اور استنبول کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جو روسی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ صدر پیوٹن نے اس ضمن میں عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے اس کے باوجود امریکہ کا فوجی بغاوت میں ملوث ہونا بظاہر بڑی عجیب بات ہے۔ اب اردوان مغرب کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کا ارادہ رکھتے ہیں اور اندرون ملک بیورو کریسی کو قابو کرنا چاہتے ہیں۔
ریفرنڈم میں کامیابی کے باوجود ترک اپوزیشن اب بھی کافی مضبوط ہے اور صدر کے اختیارات میں اضافے کے باوجود انہیں بہت سے چیلنج درپیش رہیں گے تاہم یہ طے ہوگیا ہے کہ اگلے ایک عشرے سے زائد عرصے تک اردوان کی قیادت کو کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں یہ سب کچھ نتیجہ ہے ڈلیور کرنے کا، جو ڈلیور کرے گا عوام اس کا ساتھ دیں گے، عشروں پرانے نعروں پر انحصار کرنے والے لیڈروں کا دور لد گیا۔ کمال اتا ترک کے بعد اردوان واحد لیڈر ہیں جو مقبولیت کے اس مقام پر فائز ہوئے ہیں اور اپنی جماعت کو مسلسل کامیابیوں سے ہمکنار کر رہے ہیں۔

مزید :

تجزیہ -