قائد حز ب اختلاف کو ہٹانے میں ناکامی کے بعد اب قائد ایوان کے خلاف مہم جوئی
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان نے متحد ہوکر قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا کر عمران خان (یا شاہ محمود قریشی) کو یہ منصب سونپنے کی کوشش کی تھی، دونوں جماعتوں کو اس میں ناکامی ہوئی، چند دن تک اس کا سوگ منانے کے بعد اب تحریک انصاف نے اکیلے ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے چونکہ قومی اسمبلی میں تو اپوزیشن لیڈر کو ہٹانا ممکن نہیں ہوسکا جس کیلئے دونوں جماعتوں سے باہر کے تھوڑے ہی ووٹ درکار تھے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ قائدِ ایوان (وزیراعظم) کو کیسے ہٹایا جاسکے گا؟ اسی لئے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے اندر سے تبدیلی لانے کے مشکل کام کو چھوڑ کر ایجی ٹیشن کا آسان راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، عمران خان نے اسلام آباد میں اپنے پارٹی ورکروں کے کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آخری بار باہر نکلیں، اب دیکھنا ہوگا کہ ان کی یہ صدا سنی جاتی ہے یا گُنبد کی آواز ثابت ہوتی ہے۔ ایجی ٹیشن کے ذریعے وزیراعظم کو ہٹانے کی ایک کوشش انہوں نے 2014ء کے دھرنے کے ذریعے بھی کی تھی لیکن روزانہ وزیراعظم کے استعفے کا اعلان کرنے کے باوجود اس میں ناکامی ہوئی۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز میں ایک اضافہ ہوگیا، کہ اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا دیا گیا۔ ریکارڈ تو دوسرے دھرنے نے بھی بنایا لیکن وہ جلد ہی ٹوٹ گیا کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 76 روز بعد اچانک دھرنا اٹھالیا تھا، اس کے بعد وہ بیرون ملک آتے جاتے رہتے ہیں لیکن دھرنے کا دوبارہ نام نہیں لیا۔ ایک دھرنا لاہور کے مال روڈ پر دینے کی کوشش کی تھی لیکن اس کا دورانیہ ایک فلم شو جتنا تھا یعنی لوگ آئے، انجوائے کیا، انٹرول کے دوران چائے پانی پیا اور خوشی خوشی رخصت ہوگئے۔
آپ بجا طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ جو دو پارٹیاں اکٹھے ہوکر ایک قائدِ حزبِ اختلاف کو نہ ہٹاسکیں ان میں سے ایک جماعت وزیراعظم کو کیسے ہٹا پائے گی؟ کیونکہ اب تک کے اعلان کے مطابق تحریک انصاف نے اکیلے ہی اسلام آباد شہر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ویسے اگر ماضی کی کامیابیاں اور ناکا میاں مستقبل کے متعلق کوئی شہادت ہوتی ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے متوالے کہہ سکتے ہیں
خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لاکر کسی بھی وقت ہٹایا جاسکتا ہے اور اگر یہ بات درست ہے کہ مسلم لیگ ن میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور اس کے ساٹھ ارکان پارٹی چھوڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور انہیں بس کسی قائد کا انتظار ہے جو ساٹھ ارکان کے اس گروپ کو قیادت مہیا کرے تو عمران خان ان کا ہاتھ کیوں نہیں تھامتے؟ اگر ان ارکان کو ساتھ ملا کر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لائی جائے تو یہ عین آئینی طریقہ ہوگا لیکن ایسے لگتا ہے خان صاحب کو اپنے ریفرنڈم والے صدر پرویز مشرف کی طرح آئین سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، اس لئے وہ ’’موبو کریسی‘‘ کے ذریعے طاقت کے زور پر وزیراعظم کو ہٹانے کا پروگرام رکھتے ہیں لیکن اس امر کا امکان ہے کہ یہ کوشش دھرنے کی طرح ناکام ہوجائے اور کوئی دوسرا جاوید ہاشمی کسی نئی منصوبہ بندی کا بھانڈہ بیچ شاہراہِ دستور پھر پھوڑ دے، جاوید ہاشمی نے عین اس وقت جب تحریک انصاف کے اندر کے ذرائع کے مطابق دوچار ہاتھ لبِ بام رہ گیا تھا سارا منصوبہ طشت ازبام کردیا اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ساری تفصیلات بتا دیں، کیا پتہ اب بھی اگر دھرنے کی قسم کی کوئی حماقت دوبارہ کریں تو کوئی مردے از غیب آئے اور سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دے، کیونکہ اس طرح کے منصوبے اسی طرح ہوائی ہوتے ہیں، عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جب دھرنے کے دوران عمران خان اور طاہر القادری کو ملاقات کا بلاوا آیا تو ان کے چہروں کی لالی دیکھنے والی تھی، بلاوے کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرض کرلیا تھا کہ اب استعفے میں دو چار آنچ کی کسر باقی ہے، جو پوری ہونے میں چند ساعتیں لگیں گی چنانچہ انہوں نے دوران ملاقات وزیراعظم کے استعفے پر سخت موقف اختیار کیا اور کہا کہ وہ اس سے کم پر راضی نہیں بس یہیں سے اندازہ ہوگیا کہ دونوں حضرات کو سیاسی میدان میں تیرنے اور ڈوبنے کا کتنا تجربہ ہے، اس ملاقات کے بعد مہینے گذر گئے، دھرنے اپنی موت آپ مرگئے استعفا نہ آنا تھا نہ آیا۔ اب عمران خان ایسے وقت میں ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کے بغیر وزیراعظم کو ہٹانے کی مہم جوئی کرنے نکلے ہیں جب ان کی جماعت کے ارکان پارٹی چھوڑ کر متحدہ میں شامل ہورہے ہیں ایجی ٹیشن کی سیاست کی جانب دو بارہ مراجعت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں پھوٹ کے فسانوں میں کوئی حقیقت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو ایوان کے اندر تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جاتا، ویسے تو بہت سی جماعتیں حکومت کے خلاف سیاست کررہی ہیں ان کی بھی خواہش ہے کہ وزیراعظم رخصت ہوجائیں وہ نہیں جاتے تو کم از کم رانا ثناء اللہ کی قربانی تو دے ہی دی جائے لیکن لگتا ہے فی الحال یہ بھی ممکن نہیں۔
اسلام آبادمیں میلہ کب لگتا ہے ابھی یقین سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن لگتا ہے پشاور کے حلقہ این 4 میں 26 اکتوبر کے انتخابات کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا کیونکہ اس وقت تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی ساری توجہ پشاور کے اس حلقے میں مرکوز کررکھی ہے اس کے پیشِ نظر ریپڈ ٹرانسپورٹ بس سروس کے منصوبے کا ایمرجنسی میں اعلان کردیا گیا جو کافی عرصے سے معلق تھا لیکن اب انتخابات کے موقع پر اس کے اعلان سے فائدہ تو ہوسکتا ہے اب کسی کو اس پر بھی اعتراض نہیں کہ عین الیکشن کے موقع پر ایک میگا ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیوں کیا گیا ہے۔ اس ٹرانسپورٹ منصوبے کا روٹ ان علاقوں سے گذرتا ہے جہاں ضمنی الیکشن ہورہا ہے ہمارے خیال میں تو اس میں کوئی ہرج نہیں عوام کی فلاح و بہبود کا کام کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ایسا کوئی منصوبہ مسلم لیگ ن کی کسی حکومت نے شروع کیا ہوتا تو آپ تصور فرما سکتے ہیں کہ اس پر کتنا شور اٹھتا، لیکن اب یار لوگ بھی خاموش ہیں اور الیکشن کمیشن کی توجہ سے بھی یہ منصوبہ محروم ہے۔
مہم جوئی