چکوال پی پی 23کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا براہ راست مقابلہ

چکوال پی پی 23کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا براہ راست ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

چکوال کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 23 کی انتخابی مہم ختم ہوگئی ہے۔ اس حلقے کے ضمنی انتخابات میں کون کامیاب ہوتا ہے، یہ اس لحاظ سے تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کا پلڑا مسلم لیگ (ن) کی جانب اس حد تک جھکا ہوا ہے کہ مزید ایک رکن کے اضافے (یا کمی) سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، تحریک انصاف اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ باقی جماعتیں بڑی ہوں یا چھوٹی، برائے نام ہیں۔ اتنی زیادہ اکثریت کی وجہ سے ارکان اسمبلی کارروائی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتے، یہاں تک کہ کورم بھی پورا نہیں ہوتا۔ ناراض اپوزیشن اسمبلی کے اندر اپنی قوت کے مظاہرے کی بجائے اکثر واک آؤٹ کرکے سیڑھیوں پر اجلاس کا انعقاد کرلیتی ہے۔ سچ پوچھیں تو پنجاب اسمبلی کے ارکان اکثر و بیشتر غیر سنجیدہ ہی نظر آتے ہیں۔ سیڑھیوں پر ایک آدھ مرتبہ احتجاج کے طور پر اجلاس کر لینا تو ٹھیک ہے لیکن اگر اسے پریکٹس اور روٹین کا معاملہ بنا لیا جائے تو اس میں استہزا کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ سمجھ لیں۔ بات ہم کرنا چاہتے تھے چکوال کے حلقہ 23 کی۔ جہاں عمران خان باقاعدہ جلسہ کرچکے ہیں، اپنے امیدوار کے حق میں انہوں نے دھواں دھار تقریر کی اور حسب روایت آصف علی زرداری کو بھی نقد و نظر کی سان پر رکھ لیا۔ یہ کوئی انہونی تو نہیں تھی، وہ اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی پارٹی کے امیدوار (کرنل (ر) سلطان سرخرو) کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ فی الحال ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اس حمایت کی بدولت کرنل صاحب کی پوزیشن کتنی بہتر ہوئی اور وہ کامیابی کے کتنا قریب سرک گئے لیکن جب ان کی پارٹی کے ایک رہنما نے عمران خان کے کان میں سرگوشی کی کہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی ہمارے امیدوار کی حمایت کر رہی ہے یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ انہوں نے خان صاحب کو ہتھ ہولا رکھنے کے لئے کہا یا نہیں لیکن اس سرگوشی کا جواب عمران خان نے یہ کہہ کر دیا کہ وہ حق بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتے۔ اس حق گوئی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی کی ہائی کمان نے اپنی پارٹی کی مقامی قیادت سے کہا کہ وہ تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت سے دستبردار ہو جائے۔ یوں دو پارٹیوں میں تعاون کی جو فضا بننے جا رہی تھی وہ نہ بن پائی، لیکن یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہو رہا تھا، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف قریب آتے آتے دور ہو جاتی ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا دونوں جماعتوں میں سیاسی اتحاد کی بات چل رہی تھی، انہی دنوں ہم نے ایک تصویر میں سید خورشید شاہ کو میڈیا سے بات چیت کرتے دیکھا اور عمران خان ان کے پیچھے نظر آئے۔ غالباً اس تصویر کی وجہ سے اتحاد کی بات درمیان میں رہ گئی کیونکہ عمران خان اب دوسری صف کے نہیں، صف اول کے رہنما ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے نہ صرف امیدوار ہیں بلکہ عالم خیال میں وہ کئی بار اس حادثے کو رونما ہوتا ہوا دیکھ چکے ہیں، آصف علی زرداری اور ان کے فرزند بھی وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، اب ایک میان میں تین تلواروں کے سمانے کا معاملہ تو خاصا مشکل ہے۔ تو خیر اتحاد ہوتے ہوتے رہ گیا اور پھر اس کے بعد سے دونوں پارٹیاں اپنی اپنی سیاست کر رہی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دونوں پارٹیوں میں آئندہ کبھی اتحاد نہیں ہوگا یا کم از کم اس کی بات نہیں ہوگی۔ سیاسی ضرورتیں اور ان کے منطقی تقاضے ہوئے تو دوبارہ کسی وقت اتحاد کی بات ہوسکتی ہے جو فی الحال چکوال میں نہیں ہوسکا۔
اب یہاں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا براہ راست مقابلہ ہے، موخر الذکر کو مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل ہے، جس نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا، اس علاقے اور حلقے میں سابق فوجیوں کی بڑی تعداد ووٹر ہے جس کا فائدہ تحریک انصاف کے امیدوار کو ہوسکتا ہے جو خود بھی ریٹائرڈ کرنل ہیں اور حلقے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک شہریار اعوان کی پوزیشن بھی مضبوط ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ علاقے کی معروف شخصیت اور سابق وزیر ملک سلیم اقبال کے نواسے ہیں۔ جن کا بہت اثر و رسوخ اور عزت و احترام ہے۔ یہ نشست ملک ظہور اعوان کی وفات سے خالی ہوئی ہے، ان کی جگہ انتخاب میں حصہ لینے والے ملک شہریار ان کے بھتیجے ہیں۔ ملک ظہور اعوان نے اس علاقے میں بہت سے ترقیاتی کام کروائے تھے جن کا فائدہ بھی اب ان کے بھتیجے کو ہوگا۔ بہرحال مقابلہ دلچسپ ہے اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں براہ راست ہے۔ اس انتخاب میں جو امیدوار بھی جیتے گا (یا ہارے گا) 2018ء کے عام انتخاب میں وہی اپنی اپنی جماعت کا امیدوار بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس وقت شاید دوسری جماعتیں مثلاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) بھی اپنا امیدوار میدان میں اتاریں۔ جو دو امیدوار اس وقت مقابلے میں ہیں ان کو نظریں اگلے عام انتخابات پر ہیں اور وہ اپنی پارٹیوں کے ٹکٹ پکے کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال جو بھی جیتے گا، وہ ایک سال (یا اس سے بھی کم) کے لئے پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہوگا۔
چکوال پی پی 23

مزید :

تجزیہ -