نیشنل ایکشن پلا: قوانین کو زیادہ موثر اور نقائص سے پاک بنانے کی ضرورت
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں اور پہلے سے موجود متعدد اداروں کے باوجود نئے ادارے بھی بنانے پڑتے ہیں۔ اس لئے جن لوگوں کو دہشت گردی کے خلاف نیا ایکشن پلان بنانے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا تصور بھلا نہیں لگا اور جنہوں نے ملک سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر یہ کہہ دینا صائب جانا کہ اجلاس کو کمیٹی بنانے کی بجائے پالیسی بناکے اٹھنا چاہیے تھا، انہیں شاید صورت حال کا صحیح طرح ادراک نہیں، نیا نیشنل ایکشن پلان بنانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پہلے سے کوئی پلان موجود نہیں ہے یا پھر یہ کہ سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اب کوئی کارروائی اسی صورت ہوگی جب کوئی نیا نیشنل ایکشن پلان بن جائیگا، ایسا قطعاً نہیں ہے، سیکیورٹی کے ادارے پہلے ہی دہشت گردوں سے نپٹ رہے ہیں، یہ درست ہے کہ اس کے باوجود پشاور جیسا واقعہ رونما ہوگیا ہے یا اس سے پہلے لاہور کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوگئے تھے لیکن ان تمام واقعات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ تمام دہشت گرد ہلاک ہوگئے، لاہور میں تو خود کش بمبار نے اپنے آپ کو اس وقت اڑالیا تھا جب اس کی سیکیورٹی چیکنگ ہورہی تھی، کراچی ائیر پورٹ پر بھی تمام دہشت گرد ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی مارے گئے تھے۔ پشاور کے سانحہ میں بھی کوئی دہشت گرد بچ کر نہیں گیا، پشاور کے سکول میں دہشت گردوں نے آتے ہی آناً فاناً جو کارروائی شروع کی اس میں ہال کے اندر طلبا کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے طلبا کا زیادہ نقصان ہوا، کہا جارہا ہے کہ ایک لیبارٹری اسسٹنٹ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ دیکھا گیا اگر واقعی ایسا ہے تو یہ پہلو بہت ہی سنگین ہے اور اداروں کے اندر ایسے افراد کی ممکنہ موجودگی کا سراغ لگانے کے لئے بھی ایک آپریشن کلین اپ شروع کرنے کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پشاور میں پارلیمانی جماعتوں کا جو اجلاس ہوا اور جس میں نیا ایکشن پلان بنانے کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی اس کا پہلا اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس میں ہورہا ہے یہ کمیٹی سات روز کے اندر اپنا ایکشن پلان بنائیگی گیارہ رکن کمیٹی میں جس کی صدارت وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کریں گے تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی ہے، شیریں مزاری (تحریک انصاف)، اکرم درانی (جمعیت العلمائے اسلام (ف)، صاحبزادہ طارق اللہ خان اور فرید پراچہ جماعت اسلامی مشاہد حسین سید مسلم لیگ (ق) رحمان ملک اور قمر زمان کائرہ پیپلزپارٹی، فاروق ستار اور بابر غوری ایم کیو ایم، آفتاب شیر پاؤ اور انیسہ زیب قومی وطن پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔
امریکہ میں نائن الیون کے حملے کے فوری بعد دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ بنایا گیا، سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا امریکہ جیسی سپر طاقت کے پاس پہلے سے کوئی ایسا ادارہ نہ تھا جو دہشت گردی سے نپٹ سکتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے ایسے ادارے موجود تھے جو دہشت گردی کے خلاف نپٹ رہے تھے۔ بہت سی سرکاری ایجنسیوں کے پاس اس وقت بھی ایسی اطلاعات تھیں کہ دہشت گرد امریکی تنصیبات کو ٹارگٹ کریں گے، ظاہر ہے کچھ نہ کچھ انتظامات بھی ہوں گے لیکن جس بڑے پیمانے پر اور جس ہولناک انداز میں بیک وقت تین مسافر بردار طیارے اغوا کرکے نیویارک کے ٹون ٹاور اور واشنگٹن کے پینٹا گون سے ٹکرائے گئے اس طرح کے واقعات کا کوئی تصور شاید سیکیورٹی اداروں کے ذہن میں پہلے سے موجود نہیں تھا، تیسرے طیارے کو امریکی جنگی طیاروں نے فضا میں ہی تباہ کردیا ورنہ وہ بھی ہدف تک پہنچتا تو مزید نقصان ہوتا، جونہی امریکہ میں نائن الیون ہوا، امریکی حکومت اور سارے حکومتی ادارے دہشت گردی سے نپٹنے میں جت گئے، ٹھیک ایک ماہ کے اندر افغانستان پر فضائی حملہ کردیا گیا اور طالبان کی حکومت کو ختم کرکے ان کی جگہ نئی حکومت بنادی گئی، صدر بش کی حکومت نے دل جمعی سے کام شروع کردیا، کسی جانب سے یہ مطالبہ نہیں ہوا کہ بش نااہل صدر ثابت ہوئے ہیں اس لئے وہ اقتدار چھوڑدیں، جس صدر کے عہد میں دہشت گردی ہوئی اسی صدر نے اس کے خلاف پلان بنایا، بلکہ بش دوسری ٹرم میں بھی منتخب ہوئے حالانکہ ان پر نائن الیون کی بدنامی کا داغ تھا ، بُش نے جو پلان بنایا ظاہر ہے دنیا کے ہر فوجی پلان کی طرح یہ بھی کوئی سو فیصد کامیاب یا نقائض سے پاک نہیں تھا اس لئے افغانستان پر حملے کے تیرہ سال بعد بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا امریکہ افغانستان میں سارے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ امریکی بہر حال اپنے پلان سے مطمئن تھے اور اب بھی وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے اس کا ثبوت اُن کے پاس یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد وہ امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کرسکے، اگر امریکہ فوجی جوابی کارروائی نہ کرتا تو شاید نائن لیون جیسے واقعات اور بھی ہوتے۔
سانحہ پشاور کے بعد جس طرح کا سیاسی اتحاد اب دیکھنے میں آیا ہے یہ کچھ عرصہ پہلے نہیں تھا، دہشت گردوں کے حوالے سے یکسوئی کی یہ کیفیت بھی نہ تھی، فاٹا میں کارروائی پر نکتہ چینی کی جارہی تھی، دور ازکار بحثیں بھی ہورہی تھیں لیکن ایسے لگتا ہے پشاور کے سانحہ نے ملک کو ہی ہلا کر نہیں رکھ دیا بلکہ اس بھونچال نے بہت سے دماغوں پر نئے گوشے بھی وا کردئیے ہیں جو اب تک بہت سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔ پہلے سے جو ادارے کام کررہے ہیں انہی کی اطلاعات پر قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا) نے ایک ہفتہ قبل تعلیمی اداروں میں پشاور جیسے حملے کے بارے میں خبردار کردیا تھا اور چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی اطلاع دیدی گئی تھی، اب جونیشنل ایکشن پلان بنانا مقصود ہے اس میں ضروری ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی تیز تر سماعت کا بندوبست کیا جائے اور قانون میں ایسی ترمیم کی جائے جس سے دہشت گردوں کو سنگین سزائیں مل سکیں ویڈیو اور آڈیو ٹیپ کو بھی قابل قبول شہادت بنانے کے لئے بھی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح جن مجرموں کو سزائیں سنائی جائیں ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے، جن مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور ان کی اپیلیں مسترد کردی گئی ہیں ان کے معاملات کو بھی جلد نمٹایا جائے۔ یورپی ملکوں کی بعض تنظیمیں ممکن ہیں یہ پسند نہ کریں لیکن ہمارے مخصوص حالات کے بارے میں وہ بے خبر ہیں جب انہیں اس سے آگاہی حاصل ہوجائے گی تو وہ اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی بھی کرسکتے ہیں۔