صدر ٹرمپ روس پر امریکی پابندیاں ختم کر کے سر پر ائز دے سکتے ہیںٍ

صدر ٹرمپ روس پر امریکی پابندیاں ختم کر کے سر پر ائز دے سکتے ہیںٍ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
 8نومبر 2016ء کے صدارتی انتخاب سے پہلے صدر اوباما نے کہا تھا کہ ان کی زندگی کا وہ دن انتہائی خوفناک ہوگا جب ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے مکین بنیں گے۔ حالات کا جبر اور مقدر کا نوشتہ ہے کہ آج اوباما کی آنکھوں کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوں گے۔ صدر اوباما حلف برداری کی تقریب میں موجود ہوں گے تاہم چالیس کے قریب ڈیمو کریٹک ارکان سینیٹ نے اس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اوباما نے جو الوداعی دورے اور تقریبات شروع کر رکھی تھیں، ان کے آخری مرحلے پر انہوں نے ایک الوداعی پریس کانفرنس بھی کی جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کو مفید مشورے دیئے ہیں۔ اوباما کا یہ بھی خیال ہے کہ ٹرمپ کو ان کی پالیسیاں اپنانا پڑیں گی اور امریکہ میں نسلی امتیاز کے خاتمے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت دوستانہ رہی۔ میڈیا کو میرے احتساب کا حق ہے، آزاد میڈیا ملک چلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آج کا دن اوباما کیلئے اگرچہ خوفناک ترین ہے لیکن صدارتی انتخاب کے بعد جو عرصہ گزرا اس میں شاید اوباما بہت سی نئی حقیقتوں سے آشنا ہوئے ہوں گے اور انہوں نے ان عوامل کا تجزیہ کیا ہوگا جو ٹرمپ کی جیت کا سبب بنے۔ اوباما کہا کرتے تھے کہ ان کی پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن ان سے بھی بہتر صدر ثابت ہوں گی، لیکن امریکی ووٹروں نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ اس فیصلے سے دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کے اندازے غلط ثابت ہوگئے جو اس خیال سے تقریباً متفق تھے کہ ہیلری ہی صدر منتخب ہوں گی۔ آج جب ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھائیں گے تو ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ افراد حلف برداری کی اس تقریب میں شریک ہوں گے۔
عہدہ سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ بعض چونکا دینے والے اقدامات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ یوکرائن کے مسئلے پر امریکہ نے روس کے خلاف جو پابندیاں لگائی تھیں ان کے خاتمے کا اعلان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ان پابندیوں سے نامزد وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کی کمپنی بھی متاثر ہوئی تھی۔ امریکہ میں نامزد وزراء کو سینیٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور جب تک یہ کمیٹیاں کسی نامزد وزیر کو سخت انٹرویو کے بعد کلیئر نہیں کردیتیں اس وقت تک کوئی وزیر حلف نہیں اٹھا سکتا۔ خیال ہے کہ ٹیلرسن کو بھی خارجہ امور کمیٹی کے سخت مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ ٹیلرسن کا نام سامنے آنے پر لوگوں کو حیرت ہوئی تھی لیکن انہیں وزیر خارجہ نامزد کرکے ٹرمپ نے یہ اشارہ تو دیدیا ہے کہ روس کے ساتھ ان کا رویہ نرم ہوگا۔ اوباما کا موقف ہے کہ روس پر پابندیاں یو کرائن پر قبضے کی وجہ سے لگائیں۔ ایٹمی ہتھیاروں پر کمی کے متعلق بھی روس تعاون نہیں کر رہا تھا۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے بہتر تعلقات چاہتی ہے۔ تمام چیلنجوں کے باوجود پاک امریکہ تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف تعاون مضبوط کریں گے۔ پاکستان جغرافیائی طور پر ایسے مقام پر واقع ہے کہ دنیا کے ہر ملک کیلئے اس کی خصوصی اہمیت ہے۔ امریکہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ خطے میں امن کیلئے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے، امریکی جرنیل بھی پاکستان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چند روز قبل امریکی سینیٹ کام کے کمانڈرجنرل جوزف نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جو ملاقات کی تھی اس میں دہشت گردی کی جنگ کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں اور قربانیوں کو سراہا تھا۔ امریکی جرنیلوں کو پوری طرح ادراک ہے کہ یہ جنگ کتنی مشکل ہے کیونکہ وہ خود ان مشکلات سے عملی طور پر گزر رہے ہیں اس لئے جو فوج دشوار گزار قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اس کی صلاحیتوں میں تو کوئی شک نہیں رہ جاتا، اسی لیے امریکی جرنیل نے پاکستان کی فوج کی کامیابیوں کا اعتراف کیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کچھ عرصہ قبل جو ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا اس میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور پاکستانیوں کے متعلق اچھے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان کے اندر بعض حلقوں نے اس ٹیلیفونک گفتگو کوبھی مخصوص زاویئے سے دیکھا اور بعض کو تو یہ اعتراض بھی تھا کہ اس گفتگو کا متن شائع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل یہ وہ لابی ہے جسے پاکستان کا قائدانہ کردار پسند نہیں اس لیے وہ اس کے کسی نہ کسی پہلو پر تنقید کا راستہ نکال ہی لیتی ہے، بعض لوگوں نے یہ تاثر پختہ کرنے کی کوشش کی کہ ڈونلڈ بھارت نواز ہیں حالانکہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جب انہوں نے امریکہ میں تاج محل کے نام سے کسینو قائم کیا تو انہوں نے نام کی رعایت سے بھارتی لڑکیوں کو اس کسینو میں کام کرنے کیلئے بلایا۔ اسی طرح ٹرمپ کی ایک کمپنی ایسی بھی تھی جو حسن کے مقابلوں کا اہتمام کرتی تھی ایسی ہی کمپنی نے ایشوریا رائے اور سشمیتا سین کو مس ورلڈ اور مس یونیورس کے اعزاز دیئے تھے۔ اس سے یار لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت نواز صدر ثابت ہوں گے حالانکہ عالمی سیاست میں انہیں خطے کے ان دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ درست ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تجارتی تعلقات بڑھ رہے ہیں تاہم امریکہ کوشش کے باوجود بھارت کو این ایس جی کا رکن نہیں بنوا سکا۔ صدر اوباما نے بھارت کو ’’الوداعی تحفہ‘‘ دینے کی کوشش کی تھی لیکن چین نے یہ کوشش بھی ناکام بنا دی اور واضح کیا کہ ایسا تحفہ دینا ممکن نہیں۔ ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ابھی جاری ہیں اور ان کے ہوٹل کے باہر ایک شخص نے خود سوزی بھی کرلی۔ خود کو آگ لگانے والے شخص کا کہنا تھا کہ ہم نے نااہل صدر کا انتخاب کیا، حلف سے ایک روز پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہتک عزت کا ایک دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ رئیلٹی شو اپرنٹس کی ایک سابق اداکارہ نے کیا ہے جس میں ٹرمپ پر اخلاقی نوعیت کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان سارے واقعات سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک ٹرمپ اب تک غیر مقبول ہیں۔ امریکی میڈیا نے بھی ایک سروے کا اہتمام کیا جس کا نتیجہ یہی نکلا، مظاہروں کے باوجود آج ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہو جائیں گے اور ایک نئے صدارتی عہد کا آغاز کریں گے۔
پابندیوں کا خاتمہ

مزید :

تجزیہ -