حزب اختلاف کے وسیع تر اتحاد میں عمران اور بلاول خود رکاوٹ ہیں؟
تجزیہ :چودھری خادم حسین
پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان الفاظ کے تبادلے کی جو جنگ جاری ہے۔ اطلاع کے مطابق اس حوالے سے عمران خان نے ’’جنگ بندی‘‘ کی تجویز مسترد کر دی ان کا الزام ہے کہ وزیراعظم نے ان کو گالیاں دینے والی ٹیم بنا رکھی ہے۔ یہ تجویز خواجہ سعد رفیق کی طرف سے پیش کی گئی تھی کہ سیز فائر کر لیا جائے، یہ جنگ اپنی جگہ جاری ہے کہ اب اس میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہو گئی اور اس کی توپوں کا رخ بھی وزیراعظم اور حکومت کی طرف ہے، چنانچہ مسلم لیگ (ن) کی ٹیم نے ادھر بھی جوابی حملے کئے ہیں۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کی طرف سے ناانصافی کا ذکر کرکے وار کئے جاتے ہیں اور پاناما لیکس کو ایشو کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دوسری جماعتیں معہ پیپلزپارٹی اس مسئلہ پر ویسا موقف نہیں رکھتیں۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو بلاول بھٹو زرداری جارحانہ سیاست کے لئے میدان میں کودے تھے جن کو کچھ عرصہ کے لئے روک لیا گیا تاہم اب وہ لاہور سے فیصل آباد ریلی کی قیادت کرکے اپنی من پسند سیاست کا آغاز کر چکے اور سخت الزام لگائے اور تلخ رویہ بھی اختیار کیا۔ تاہم اس مرتبہ توہین آمیز الفاظ نہیں تھے۔ جہاں تک ان کی طرف سے جارحانہ اور تلخ تقریر کا تعلق ہے تو پیپلزپارٹی اپوزیشن کی جماعت ہے، اس نے برسراقتدار جماعت ہی کو نشانہ بنانا ہوتا ہے، اب ایک سے دو جماعتیں ہو گئیں اور شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی طرف سے اور آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کی طرف سے بڑے سیاسی اتحاد کی نوید سنا چکے ہیں تاہم متعدد امور پر اتفاق رائے کے باوجود اس میں تاخیر کا قوی امکان ہے کہ بلاول اپنی جگہ اور عمران خان اپنی جگہ ایسا نہیں چاہتے۔ جس کی وجہ دونوں جماعتوں کا حزب اختلاف میں ہونا اور پیپلزپارٹی سے لوگوں کا تحریک انصاف میں جانا ہے، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک توڑا اور اسی میں سے حصہ حاصل کیا ہے۔ پیپلزپارٹی اپنا یہی ووٹ بینک واپس حاصل کرکے اسے بڑھانے کی خواہش مند ہے کہ نوجوانوں نے تحریک انصاف کا رخ کیا حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ووٹرکی عمر 18سال اسی لئے کی کہ ان کو نئی نسل پر یقین تھا اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ اپنی جماعت کی حمائت میں دیکھتی تھیں لیکن ان کی شہادت کے بعد ایسا نہ ہوا یہ نوجوان پیپلزپارٹی کی فرینڈلی اپوزیشن سے زچ ہوکر تحریک انصاف کی طرف چلے گئے تھے اور پنجاب میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو بھی ضمنی انتخاب ہوا اور پیپلزپارٹی کے امیدوار نے بھی حصہ لیا تو اس کا نمبر تحریک انصاف کے بعد ہی آیا۔
اسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے امریکہ روانگی میں تاخیر کرکے لاہور فیصل آباد ریلی کی قیادت کی اور وہ نتیجے سے بہت مطمئن ہیں کہ عوامی سطح پر ان کو جواب اچھا ملا اور عام آدمی نے ان کی پذیرائی کی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی سے جانے والوں نے واپسی کی راہ اپنانے کی کوشش کی ہے تو بعض کی راہ میں جیالے رکاوٹ بن گئے ہیں۔ پنجاب کے سابق سینئر وزیر اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض تحریک انصاف سے واپس آنا چاہتے ہیں لیکن مرکزی پنجاب کی موجودہ قیادت نے چیئرمین بلاول کو اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے مخالفت کر دی ہے کہ راجہ ریاض کی وجہ سے فیصل آباد ڈویژن کے جو جیالے پس پردہ چلے گئے۔ وہ اب متحرک ہوئے ہیں اور واپسی ہوئی تو وہ پھر سے یہی رویہ اپنا لیں گے۔
ادھر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے خلاف جو تحریک استحقاق جمع کرائی اس پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے علاوہ اے این پی کے غلام احمد بلور کے بھی دستخط ہیں اور یوں اے این پی بھی اس قافلے میں شامل ہو گئی۔ محرکین کی طرف سے سپیکر سے کہا گیا کہ تحریک کو جلد ایوان میں پیش کیا جائے جبکہ سپیکر اس حوالے سے اپنی لا برانچ سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم تاحال اس میں غیر جانبدار ہے اور اس نے حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بھی تاحال تحریک کے حق میں فیصلہ نہیں کیا۔
نئے سال 2017ء کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ سیاسی سرگرمیوں کا سال ہو گا، تو اس کے آثار بننے جا رہے ہیں۔ آفتاب احمد شیرپاؤ کو پیپلزپارٹی میں واپس لانے کے لئے بھی ایک گروپ سرگرم ہے تاہم انحصار پیپلزپارٹی خیبر پختونخوا کے نئے صدر کے رویے پر ہو گا۔
رکاوٹ