شہباز شریف کو ’’اٹیک اوور ‘‘ کے مشورے دینے والوں کا سیاسی پش منظر جاننا کیوں ضروری ہے ؟

شہباز شریف کو ’’اٹیک اوور ‘‘ کے مشورے دینے والوں کا سیاسی پش منظر جاننا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

آمریت کے دستر خوان سے ریزہ چینی کرنے والوں کیلئے اگر سیاسی جماعتیں اپنے دروازے اسی طرح کھولتی رہیں گی تو پھر انہیں بہت کچھ بھُگتنا پڑے گا، آج اگر مسلم لیگ (ن) کے اندر توڑ پھوڑ کے حربے آزما ئے جا رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ انہیں یہی کچھ کرنا تھا اور وہ اسی مقصد کیلئے ’’پلانٹ‘‘ کئے گئے تھے، 2013ء کے انتخابات سے پہلے اور معاً بعد جو لوگ’’ جمہوریت کی محبت‘‘ میں نواز شریف کی جماعت میں شمولیت کیلئے ہر حربہ آزما رہے تھے اور پارٹی کے اندر اور باہر سے سفارشوں کا سہارا بھی لے رہے تھے تو ماریں کھانے والوے کارکنوں نے دبے دبے الفاظ میں یہ کہا بھی کہ ان لوگوں کو جماعت میں شامل نہ کیا جائے جو 1999ء کے حادثے کے بعد چھلانگیں لگا کر کنگز پارٹی میں چلے گئے تھے اور پھر اس عہد کی برکتوں سے مستفید ہوتے رہے لیکن یہ ایسے فن کار ہیں کہ ہر جماعت میں شامل ہونا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب آزمائش کی گھڑی آتی ہے تو اس سرعت سے پارٹی چھوڑ جانے کو بھی اپنا استحقاق گردانتے ہیں، اس لئے اگر آج شیخ رشید یہ شیخیاں بگھار رہے ہیں کہ تھوڑے دنوں میں اسی ارکان مسلم لیگ ن چھوڑ جائیں گے تو وہ ایسے ہی لوگوں کے کرشمے کے منتظر نظر آتے ہیں لیکن اب کی بار سیاسی بازی گروں کو ایک عجیب مخمصے نے بھی گھیر رکھا ہے ساری اطلاعات یہ ہیں کہ تمام تر مشکلات اور توڑ پھوڑ کے باوجود نواز شریف کا ووٹر ان کے ساتھ کھڑا ہے، اور بظاہر نہیں لگتا کہ 2018ء کے انتخابات میں نواز شریف کی پارٹی کو ہرانا ممکن ہوگا اس لئے ’’مشنری ارکان‘‘ اپنے ’’مشن‘‘ میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ جس جماعت کی جیت کی ہوائیں چل رہی ہوں اسے چھوڑ کر جانا خسارے کا سودا ہے، مسلم لیگ (ن) کو سیاستدان اگر نہیں چھوڑ رہے تو اس کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ ان کی نگاہ اگر نواز شریف کے متبادل پر پڑتی ہے تو وہ بھی ان کا چھوٹا بھائی شہباز شریف ہے، اسے آپ لطیفہ کہیں گے یا کچھ اور، جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سیاست میں ایک خاندان کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہئے، کبھی وہ شریف خاندان پر مغل شہزادوں کی پھبتی کستے ہیں ان کی نگاہ بھی اگلے صدر کے طور پر اگر کسی پر پڑتی ہے تو وہ بھی شہباز شریف ہیں اب کوئی ان سے پوچھے کہ شریف خاندان سے جان چھڑانے کیلئے انہیں خاندان سے باہر کسی رجلِ رشید پر نگاہ رکھنی چاہئے تھی، نواز شریف کی جگہ اگر شہباز شریف نے بعض حضرات کی خواہش پر ’’ٹیک اوور‘‘ بھی کرلیا تو پھر تبدیلی کیا ہوئی؟ آخر اس طرح کس کی انا کو تسکین پہنچتی ہے کہ نواز شریف ہر صورت جانے چاہئیں چاہے ان کی جگہ چھوٹے بھائی کو دینی پڑے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ہونا چاہئے اور ہوتا بھی ہے، تربیت یافتہ سیاسی کارکن اپنے لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں وہ مریدین نہیں ہوتے جو لیڈر کی ہر بات پر آنکھ بند کرکے ایمان لے آئیں۔ سیاسی کارکنوں کی جرات رندانہ کا ایک واقعہ اس موقع پر یاد آتا ہے، مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ (آج کا پورا پاکستان) ڈاکٹر خان صاحب پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار سے پیدل گذر رہے تھے کہ یکا یک کہیں سے ایک کارکن نمودار ہوا اور آتے ہی ڈاکٹر خان صاحب کو گلے سے پکڑ لیا اور غصے سے کہا کہ تم نے اپنی سیاسی جماعت کے ورکروں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ڈاکٹر خان صاحب نے کہا پہلے میرا گریبان چھوڑو پھر بتاتا ہوں، اس پر ڈاکٹر خان صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے کارکنوں میں اتنی جرات اور ہمت پیدا کردی ہے کہ وہ بھرے بازار میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں اپنے وزیراعلیٰ اور اپنی جماعت کے رہنما کا گریبان پکڑ کر اس سے سوال کرسکتا ہے اور اپنے سوال کا جواب مانگ سکتا ہے، یہ سیاسی کارکن ہی ہوتے ہیں جو اپنی جماعت کی قیادت کے ساتھ پیمان وفا باندھے اور پختہ کرتے ہیں۔ سیاسی مسافروں میں یہ صفت نہیں ہوتی وہ دانا دھنکا چُگنے کے لئے کبھی ایک چھتری پر بیٹھتے ہیں اور کبھی دوسری پر، جب انہیں نظر آنا شروع ہوتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا سربراہ آزمائش سے دوچار ہونے والا ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس جماعت کی چھتری سے اڑ جائیں۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا ہے اور اسی بنیاد پر ان کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہوئی ہے، یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے ایک اقامے کی بنیاد پر کیا ہے جس کے تحت وہ اپنے بیٹے کی کمپنی کے چیئرمین تھے، جس کی ایک تنخواہ بھی مقرر تھی جو اگرچہ انہوں نے وصول نہیں کی لیکن وہ اس کا استحقاق رکھتے تھے اس لئے اس کی تعریف یوں کی گئی کہ یہ ایک ’’اثاثہ‘‘ تھا جسے کاغذاتِ نامزدگی میں ڈکلئر کرنا ضروری تھا، چونکہ ایسا نہیں کیا گیا اس لئے نا اہلی کا حکم سنایا گیا، اس کے علاوہ درخواست گذاروں نے جو الزامات لگائے تھے یا جو دورانِ تفتیش سامنے آئے ان پر نیب کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ الزامات کے تحت فرد جرم لگ گئی ہے اب اس کا فیصلہ ہوگا لیکن ’’نا اہل‘‘ نواز شریف کے متعلق کوئی دوسرا فیصلہ سپریم کورٹ نے نہیں دیا، البتہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی آمریت کے دور میں آئینِ پاکستان کے منافی جو قانون سازی کی تھی پارلیمنٹ نے اس کا خاتمہ کردیا، اصل آئین میں جو 1973ء سے نافذ ہے کسی شخص پر سیاسی جماعت بنانے اور اس کا سربراہ بننے پر کوئی پابندی نہیں، 2002ء کے الیکشن سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے عوامی نمائندگی ایکٹ کے ذریعے یہ پابندی عائد کردی کہ جو شخص قومی اسمبلی کا رکن نہیں بن سکتا، وہ سیاسی جماعت کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا، اب یار لوگ اس طرح بات کرتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کا بنایا ہوا قانون تو مقدس تھا اور اس سے پہلے جو قانون رُبع صدی تک نافذ رہا اس کی کوئی تقدیس نہیں تھی، بڑی بڑی عزت ماب جماعتیں بھی پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی قانون میں ترمیم کو آئین کی روح کے منافی تصور کررہی ہیں اور عدالتوں میں اس بنیاد پر یہ مقدمہ لے کر گئی ہیں، ستمِ ظریفی یہ ہے کہ انہیں یہ بھی امید ہے کہ عدالت اسے آئین کی روح کے منافی قرار دے دے گی، کوئی ان سے پوچھے کہ آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن نہ لڑسکنے والا شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا، یہ مقدمہ بہرحال عدالت سے ہی فیصل ہوگا لیکن کیس دائر کرنے والے اگر عدالت جانے سے پہلے تھوڑا بہت مطالعہ بھی کرلیا کریں تو عدالتوں کا وقت ضائع نہ ہو۔

مزید :

تجزیہ -