گرایا جانے والا ایرانی ڈرون طیارہ پاکستان میں کس قسم کی جاسوس سرگرمیوں میں شریک تھا؟

گرایا جانے والا ایرانی ڈرون طیارہ پاکستان میں کس قسم کی جاسوس سرگرمیوں میں ...
گرایا جانے والا ایرانی ڈرون طیارہ پاکستان میں کس قسم کی جاسوس سرگرمیوں میں شریک تھا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: ۔ قدرت اللہ چودھری
  پاکستانی فضائیہ نے پنجگور کے علاقے میں ایرانی ڈرون طیارہ مار گرایا جو پاکستان کی حدود کے اندر پرواز کررہا تھا اور الزام لگایا گیا ہے کہ یہ جاسوسی کے مشن پر تھا۔ اب تک اس ضمن میں ایرانی حکومت کا رد عمل سامنے نہیں آیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایرانی حکومت کو پاکستان کے اندر جاسوس طیارہ بھیجنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟ دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تاریخی طور پر بھی یہ بات ثابت شدہ ہے۔ دوستوں کی جاسوسی چہ معنی دارد؟اگر دونوں ملکوں کے درمیان عالمی امور پر کوئی اختلافات ہیں تو یہ نہ تو کوئی حیرت کی بات ہے اور نہ ہی خارجہ پالیسی کے امور میں دوست ملک ہمیشہ ایک ہی لائن کی سیدھ میں ہوتے ہیں ۔ دو انتہائی قریبی ملکوں کی خارجہ پالیسی بعض معاملات پر مختلف ہوسکتی ہے ایران پاکستان کا ہمیشہ سے ہمسایہ اور دوست ہے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوستی کی یہ پالیسی ہمیشہ یکساں رہی ہے کبھی تو اس دوستی میں بعض رخنے بھی در آتے رہے ہیں۔ ایران میں شاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے فوری بعد ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب امام خمینی نے دنیا کے پانچ ممالک کی حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کا حکم جاری کیا تھا جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی، ایران کی انقلابی حکومت بظاہر ضیاء الحق کے اس لئے خلاف تھی کہ جن دنوں ایران میں شاہ کے خلاف امام خمینی کی تحریک زوروں پر تھی جنرل ضیاء الحق ایران کے دورے پر گئے تھے اِس دورے کا وقت ایسا تھا کہ شاہ مخالف تحریک نے اس سے کوئی اچھا تاثر نہیں لیا، اس دورے کے تھوڑے ہی دن بعد شاہ ایران ملک چھوڑ کر چلے گئے، امام خمینی فرانس سے واپس آگئے اور انقلابی حکومت قائم ہوگئی ۔ ایران میں یہ دور شاہ کے حامی عناصر کے لئے مشکل دور تھا، اُنہیں انقلابی عدالتوں نے سزائیں دیں۔ جو ملک یا حکومتیں شاہ ایران کے قریب یا ان کی دوست سمجھی گئیں انہیں ایران کی نئی حکومت نے نشانے پر رکھ لیا، یہی پس منظر تھا جس میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کا حکم صادر کیا گیا، سعودی حکومت بھی نئی انقلابی حکومت کی نکتہ چینی کا ہدف تھی ایران کے سرکاری اخبارات ’’اطلاعات‘‘ اور ’’کیہان انٹر نیشنل‘‘ کے صفحہ اول پر ان ملکوں کی حکومتوں کے تختے اُلٹنے کے فتوے کی تشہیر کی جاتی تھی یہ الگ بات ہے کہ انقلابیوں کو اس میں کامیابی نہ ہوسکی، جنرل ضیاء الحق گیارہ سال تک حکومت کرتے رہے اور جب اُن کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اس وقت بھی ان کی حکومت کو کوئی اندرونی اور بیرونی خطرہ درپیش نہیں تھا، جنرل ضیاء الحق کی حکومت حادثے کی وجہ سے ختم ہوئی، کسی اندرونی سیاسی قوت یا بیرونی عنصر کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت ختم کر سکتا۔ یہی حال سعودی عرب کا ہے۔ سعودی شاہی خاندان کا اقتدار آج تک مستحکم ہے اور جس قسم کی بادشاہت سعودی عرب میں قائم ہے وہ اپنی ڈگر پر چل رہی ہے۔ گذشتہ روز شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد بنایا ہے، یوں بادشاہیت اب شاہ سلمان کے گھرانے کے اندر منتقل ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے شہزادہ محمد بن سلمان 31 سال کے نوجوان ہیں اور سعودی مملکت کی معیشت کو جدید خطوط پر اتوار کرنا چاہتے ہیں امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کی کامیاب تکمیل میں اُن کا بہت زیادہ عمل دخل بتایا جاتا ہے۔دیکھا جائے تو ایران کی انقلابی حکومت اپنے جس انقلاب کو برآمد کرنے کے مشن پر تھی اس میں اُسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی، اُلٹا صدام حسین نے ایران پر جنگ مسلط کر دی جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اب سعودی عرب میں بیٹھ کر امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ایران کو تنہا کرنے کی بات کی ہے تو سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ قطر کے خلاف سعودی اقدام کی وجہ سے بھی قطر اور ایران ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کو پاکستان کی فضا میں جاسوس طیارہ بھیجنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے بعض دشمن ملک چاہتے ہیں کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوجائے اس مقصد کے لئے وہ کبھی سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کے معاملے کو اچھالتے ہیں تو کبھی اس کی سربراہی جنرل راحیل شریف کو سونپے جانے پر معترض ہوتے ہیں حالانکہ وہ اب پاک فوج کی سربراہی سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے عرصے میں وہ کوئی بھی کام کرنے میں آزاد ہیں انہیں اگر سعودی قیادت نے کوئی ذمہ داری سونپ دی ہے تو اس پر ایران کو یا کسی دوسرے ملک کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن لگتا ہے یہی بات ایران کوہضم نہیں ہو رہی ۔ اور جاسوس طیارہ اسی مقصد کے لئے پاکستان کی حدود میں بھیجا گیا تھا، ایران کو یہ شکایت بھی ہے کہ پاکستان کے بعض دہشت گرد ایران کی سرحد پر سرحدی محافظوں پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک واقعہ میں چند ہفتے قبل ایران کے بعض سرحدی محافظ جاں بحق ہوگئے تھے جس کے جواب میں ایران کے بعض جرنیلوں نے پاکستان کو دھمکیاں بھی دی تھیں۔ ڈرون طیارے کی آمد کو اس پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یا دیو ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے علاقے میں ہی مقیم تھا گذشتہ برس اس کی گرفتاری کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تھے اس موقع پر اس معاملے کے منظر عام پر آنے سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوا تھا۔چاہ بہار کی بندر گاہ کو بھارت ترقی دنیا چاہتا ہے لیکن ایرانی قیادت کئی دفعہ کہہ چکی ہے کہ یہ بندرگاہ گوادرکی حریف نہیں ہے تاہم عمومی طور پر یہی سمجھاجاتا ہے کہ بھارت اس بندرگاہ میں سرمایہ کاری اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لئے کر رہا ہے بھارت کی یہ کوشش بھی ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اسی طرح غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں جس طرح بھارت نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدا کر رکھی ہیں اب یہ دونوں ملکوں کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس طرح کی کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ ایرانی جاسوس طیارے کے مشن کے بارے میں ایران کو وضاحت کرنی چاہئے۔
ڈرون طیارے کا مشن

مزید :

تجزیہ -