پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتیں نواز شریف کو سیاسی میدان سے باہر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی تقریر جاری تھی کہ پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے ایک دیرینہ کرم فرما لابی میں آئے اور فون کرکے بتایا کہ پیپلز پارٹی کا پیش کردہ ترمیمی بل ناکام ہو جائے گا۔ حیرت سے پوچھا ابھی تو رائے شماری کی نوبت نہیں آئی، تقریریں جاری ہیں، پس منظر میں ہونے والی کاوشیں بھی کام دکھائیں گی۔ پیپلز پارٹی اگر اپنے ہی بانی قائد کی ختم کی ہوئی ترمیم کو دوبارہ قانون کا حصہ بنانے پر تلی ہوئی ہے تو آخر اس کی بھی کوئی وجہ تو ہوگی۔ پارٹی کو اگر کامیابی کا یقین نہ ہوتا تو نوید قمر شاید رسک لے کر یہ بل پیش ہی نہ کرتے، دوست نے کہا کہ تم یہ بات اس لئے کہہ رہے ہو کہ شاہ محمود کا چہرہ تمہارے سامنے نہیں ہے، جس پر ہوائیاں اس طرح اڑ رہی ہیں، جیسے مرید حسین قریشی سامنے بیٹھے ہوں۔ الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے اور باڈی لینگوئج بتا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کا یہ بل پاس نہیں ہونے والا۔ جس کی تحریک انصاف بھی حامی ہے، لیکن اس کے قائد عمران خان حسب روایت آج بھی ایوان میں موجود نہیں ہیں۔ اس کی سنجیدگی کا اسی سے اندازہ لگالیں، پوچھا شاہ محمود تو بل کے محرک نہیں، وہ کس حیثیت میں خطاب کر رہے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ سپیکر نے انہیں بات کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن وہ اصرار کرتے رہے اور آخر میں کہا کہ وہ صرف پانچ منٹ کے لئے بات کرنا چاہتے ہیں۔ سپیکر نے اجازت تو دے دی، لیکن پانچ منٹ کی تقریر جب 18منٹ بعد ختم ہوئی تو پریس گیلری میں یقین ہوگیا کہ یہ بل منظور نہیں ہوگا، بعد میں جب رائے شماری ہوئی تو بل کے حق میں 98 اور مخالفت میں 163 ووٹ آئے۔ نوید قمر کے پیش کردہ بل میں کہا گیا تھا کہ نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ نوید قمر نے تو یہ بل اپنی پارٹی کی پالیسی کے مطابق ایوان میں پیش کیا، لیکن پارٹی قیادت کو یہ تو یاد ہوگا کہ کسی بھی پارٹی قیادت کی اہلیت اور نااہلیت کا معاملہ کن کن مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ اس کے لئے سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ہوگی۔
جنرل ایوب خان نے 1958ء میں برسراقتدار آنے کے بعد مارشل لاء کے تحت ایبڈو کا قانون نافذ کیا تھا، جس کے تحت بہت سے سیاستدانوں کو سات سال کے لئے الیکشن لڑنے کے لئے نااہل قرار دے دیا تھا۔ ایوب خان نے اپنے بنیادی جمہوریت کے عجونہ نظرئیے کے تحت جو بالواسطہ انتخابات کروائے، ان میں حصہ لینے سے روکنے کے لئے سیاست دانوں کی بڑی تعداد پر ایبڈو کی پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایسے سیاستدان کسی سیاسی جماعت کی سربراہی بھی نہیں کرسکتے تھے اور اس کا مقصد بھی ان سیاستدانوں کو جو ایوب خان کی نظر میں ناپسندیدہ تھے۔ کسی سیاسی جماعت کی سربراہی سے روکنا تھا، ان کا اصلی ہدف یہ تھا کہ آہستہ آہستہ وہ لوگ سیاست میں گمشدہ باب بن جائیں گے، جو قدآور سیاست دان ہیں اور وہ لوگ آگے آجائیں گے، جنہوں نے ان کی فوجی نرسری کے گملوں میں پرورش پائی ہے۔ جب یہ قانون بنایا گیا، اس وقت ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے ساتھی تھے، لیکن جب انہوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا اور پیپلز پارٹی بنا کر برسر اقتدار آئے۔ 1973ء کا آئین نافذ ہوا تو اس کے بعد انہوں نے 1975ء میں ایوب خان کی لگائی ہوئی پابندی ختم کر دی۔ یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کے سارے دور میں سیاستدان کئی قسم کی آزمائشوں سے گزرتے رہے۔ تاہم قانون کی حد تک کسی منتخب ادارے کی رکنیت کے لئے نااہل شخص پر سیاسی جماعت کی سربراہی کا منصب سنبھالنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لیکن سیاسی مصلحتیں اور ضرورتیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ جب جنرل (ر) پرویز مشرف، نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی ایوب خان کے نقوش قدم پر چلنا پسند کیا اور سیاستدانوں کا راستہ روکنے کے لئے بہت سے قوانین متعارف کرا دئیے۔ گریجوایشن کی پابندی بھی اسی لئے لگائی گئی تھی تاکہ بعض نامور سیاستدانوں کو اس طریقے سے پارلیمنٹ سے باہر رکھا جاسکے، اسی طرح انہوں نے عوامی نمائندگی کے قانون میں یہ الفاظ بڑھا دئیے کہ جو شخص کسی منتخب ادارے کی رکنیت کا اہل نہیں ہوگا، وہ سیاسی جماعت کا سربراہ بھی نہیں بن سکے گا۔ بظاہر اس قانون کے تحت بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ 2002ء کے انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کو امین فہیم کی قیادت میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانا پڑی، یہی جماعت الیکشن لڑتی رہی، اگرچہ پالیسی بینظیر بھٹو ہی کی چلتی رہی اور پرویز مشرف کی کوششوں کے باوجود امین فہیم پارٹی چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے پرآمادہ نہ ہوئے۔ ناکامی کے بعد پرویز مشرف نے وہی کام راؤ سکندر اقبال اور فیصل صالح حیات سے لے لیا جو وہ امین فہیم سے نہیں لے سکے تھے۔ اب کئی برس بعد فیصل صالح حیات پیپلز پارٹی میں واپس آگئے ہیں تو جھنگ میں ان کی دیرینہ حریف عابدہ حسین تحریک انصاف میں جانے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ تو خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ جو ترمیم بھٹو نے قانون سے نکال دی تھی اس کو واپس شامل کرانے کے لئے نوید قمر نے بل پیش کیا جو اسمبلی میں کثرت رائے سے مسترد ہوگیا۔ بعض لوگوں کو ایسی جمہوریت شرمناک نظر آتی ہے اور گزشتہ کئی روز سے یہ ہوائی اڑائی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے 70 ارکان یا تو اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوں گے یا پھر ووٹنگ کے وقت غیر حاضر ہو جائیں گے۔ ساری امیدیں ان باغی ارکان سے ہی وابستہ کی جا رہی تھیں، لیکن یہ امیدیں بر نہ آسکیں اور صرف میر ظفراللہ خان جمالی ایک ایسے مرد مجاہد نکلے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے بل کی حمایت میں ووٹ دیا اور یہ کوئی حیران کن بات اس لئے نہیں کہ جمالی صاحب پیپلز پارٹی میں شامل رہے ہیں اور کبھی کبھی آدمی کو چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آ ہی جاتی ہے۔ وہ نواز شریف کو لیڈر نہیں مانتے۔ بڑی اچھی بات ہے، نہ مانیں لیکن انہیں کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوں اور اگر ہوگئے تھے تو نکلتے وقت ہی کچھ سوچ لیتے لیکن ایسے لگتا ہے انہوں نے نہ پارٹی میں شامل ہوتے وقت سوچ و بچار سے کام لیا اور نہ ہی نکلتے وقت۔ اب بہتر یہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی میں واپس چلے جائیں تاکہ یہ تو کہہ سکیں کہ وہ اپنے گھر واپس آگئے ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کو نیا گھر بنا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اگر چاہتی تھی کہ نواز شریف دوبارہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نہ بنیں تو بہترین موقع وہ تھا جب سرکاری بل سینیٹ سے منظور کرالیا گیا تھا۔ اس وقت تو اپوزیشن کے بہت سے ارکان پراسرار طور پر ادھر ادھر کھسک گئے، بعد میں خفت مٹانے کے لئے نیا بل سینیٹ سے منظور کرالیا، جو آج قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے مسترد ہوگیا۔ سیاست میں ساری خواہشات ہمیشہ پوری نہیں ہوتیں۔ یگانہ چنگیزی یاد آتے ہیں۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
سیاسی میدان