سپریم کورٹ میں یکم نومبر کو سماعت کی وجہ سے کیا 2نومبر کا دھرنا متاثر ہو گا ؟
سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف عمران خان، شیخ رشید اور دوسروں کی درخواستوں کی سماعت کی تاریخ یکم نومبر مقرر کی ہے۔ تمام فریقوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے جوابات یکم نومبر سے پہلے پہلے جمع کرا دیں، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں یا نہیں یکم نومبر کے صرف ایک روز بعد 2 نومبر کو عمران خان نے اسلام آباد بند کرنے اور دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کیس کی سماعت اور اسلام آباد کا دھرنا دو الگ الگ معاملات ہیں، تاہم ایک حلقے کی یہ رائے ہے کہ اب جبکہ عمران خان کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوگئی ہے تو انہیں دھرنے کے بجائے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے لیکن اگر درخواست سماعت کیلئے منظور ہو بھی گئی تو نہیں کہا جاسکتا کہ اصل درخواست کی سماعت پر کتنا عرصہ لگے گا اس لئے اندازہ ہے کہ یہ مقدمہ لمبا چلے گا تاہم عمران خان نے اس سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات سے صاف انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دھرنا طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوگا تاہم یہ تو عمران خان کا اپنا پروگرام ہے حکومت کے کیا ارادے ہیں ان کا بھی تھوڑا تھوڑا اندازہ ہو رہا ہے۔ مذاکرات کا امکان ختم ہونے کے اعلان کے بعد حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ اب کی بار اسلام آباد میں دھرنے والوں کو فری فال آل وکٹ نہیں ملنے والی، جہاں وہ چاروں طرف چوکے چھکے لگاتے پھریں۔ اسلام آباد کو دھرنے والوں کے حوالے کرنے کی بجائے قانونی طور پر نپٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور قانون اپنا راستہ خود متعین کرے گا۔ حکومت چاہے گی کہ ہر سطح پر اور ہر مرحلے پر دھرنے والوں سے قانون کے مطابق نپٹے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ان کی گرفتاریاں ہوں گی اور وہ اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ 2014ء کے دھرنے میں پی ٹی وی پر حملے کے سلسلے میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے عدالت سے وارنٹ جاری ہوچکے ہیں لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی کیونکہ ہر بار پولیس کی جانب سے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ دونوں اپنے پتوں پر دستیاب نہیں حالانکہ عمران خان تو آج کل دھرنے موٹی ویشن کے جلسے کر رہے ہیں کل وہ فیصل آباد میں تھے، آج پشاور میں تھے لیکن پولیس کا غالباً یہ خیال ہے کہ وہ خود گرفتاری دینے کیلئے آ جائیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی ابھی دو ہفتے پہلے تک یہیں تھے۔ وہ روزانہ ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے اور حکمرانوں کو للکارتے للکارتے بیرون ملک چلے گئے ہیں، اب وہ بیرون ملک جاچکے اور معلوم نہیں کب واپس آتے ہیں تاہم اگر ان دونوں حضرات کی گرفتاری مطلوب تھی تو یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا لگتا ہے اب ٹی وی پر حملے کے مقدمے میں عمران خان کو گرفتار کرلیا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ ان کی رہائی دھرنے کی تاریخ گزرنے کے بعد ہو، ایسی صورت میں وہ دھرنے کی نئی تاریخ دیں گے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ دھرنے والوں کو مختلف شہروں میں روک لیا جائے تاکہ دوسرے شہروں سے کم سے کم لوگ اسلام آباد پہنچیں اور زیادہ سے زیادہ صرف جڑواں شہروں کے لوگ ہی دھرنے میں جاسکیں تاہم یہ تو طے ہے کہ دھرنا II پہلے دھرنے سے مختلف ہوگا۔ ایک وزیر نے الزام لگایا ہے کہ تحریک انصاف نے بعض دوسری جماعتوں سے 500 مسلح افراد بھی مانگے ہیں۔ یہ الزام ہے یا حقیقت لیکن یہ واضح انڈی کیٹر ہے کہ اب دھرنا پہلے سے مختلف ہوگا اور حکومت کا رویہ بھی پہلے جیسا نہیں ہوگا۔