میر ظفر اللہ جمالی کے سر سے وزارت عظمیٰ کا ہُما جنرل پرویز مشرف نے اڑا دیا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ابھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عام انتخابات سے پہلے پہلے مہاجروں کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں اکٹھی ہو جائیں گی یا کم از کم ان میں ایسا اتحاد ہو جائے گا کہ مہاجر ووٹ تقسیم نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت میں وہ مخالف سیاسی جماعتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں، جو مہاجر ووٹ متحد ہونے کی صورت میں ناکام ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں۔ مہاجر رہنماؤں کے مل بیٹھنے کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب ڈاکٹر فاروق ستار نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، اس میں شرکت کے لئے آفاق احمد اور مصطفی کمال تو پہنچ گئے، لیکن باقی کسی جماعت کے کسی رہنما نے شرکت نہ کی، جس کی وجہ سے کانفرنس تو منسوخ کرنا پڑی لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال اور آفاق احمد کچھ عرصے کے لئے اکٹھے بیٹھ گئے۔ تبادلہ خیالات بھی ہوا اور یہ اصولی بات بھی کرلی گئی کہ مہاجر ووٹ تقسیم ہوا تو نقصان مہاجروں کا ہی ہوگا۔ اس لئے کوئی ایسی سبیل کرنی چاہئے کہ ایسا نہ ہوسکے، لیکن آج کل جو خبریں آرہی ہیں وہ تو زیادہ اچھی نہیں اور کہا جا رہا ہے ایم کیو ایم پاکستان کے بھی دو ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر سیاستدان مسلم لیگ (ن) کی تقسیم پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور بارش کے پہلے قطرے ریاض حسین پیرزادہ کے بعد مزید چھینٹے پڑنے کے منتظر ہیں، لیکن ابھی بادل بے شک چھائے ہوئے ہیں، کوئی اور قطرہ نہیں گرا، پہلا قطرہ میر ظفر اللہ جمالی تھے یا ریاض پیرزادہ، یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا لیکن دونوں رہنماؤں کے بارے میں قدر مشترک یہ ہے کہ انہوں نے بہت سی سیاسی جماعتوں میں شرکت کرکے انہیں خیرباد کہا۔ میر ظفراللہ جمالی ’’مسلم لیگوں‘‘ میں بھی رہے، وہ متحدہ مسلم لیگ میں تھے، 2002ء کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے، جہاں وزارت عظمیٰ کا ہما ان کے سر پر بیٹھ گیا، اب یہ پتہ نہیں کہ یہ پرندہ جنرل پرویز مشرف کی مہربانی سے ان کے سر پر بیٹھا تھا یا چودھری شجاعت کی، لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس پرندے کو جمالی صاحب کے سر سے اڑایا جنرل پرویز مشرف نے تھا اور اس کے لئے طریق کار یہ اپنایا گیا کہ صدر نے جو آرمی چیف بھی تھے اور جنہیں وزیراعطم اپنا باس ڈیکلیئر کرچکے تھے، انہیں آرمی ہاؤس میں طلب کرکے ان سے استعفا مانگ لیا۔ میر ظفر اللہ جمالی چونکہ اس کی تردید کرتے ہیں کہ ان سے استعفا طلب کیا گیا تھا، اس لئے ان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے استعفا مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کو پیش کیا تھا۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ یوں بیٹھے بٹھائے استعفا دینے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی۔ میر ظفر اللہ جمالی پیپلز پارٹی میں بھی رہ چکے ہیں، یہی صورت ریاض پیرزادہ کی ہے، وہ پہلی بار 85ء میں غیر جماعتی انتخاب لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے اور انہیں وزارت کا منصب اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف کی مہربانی سے ملا تھا، اسے سیاست کی ستم ظریقی ہی کہا جائے گا کہ یہی ریاض پیرزادہ آج نواز شریف کو مسلم لیگ کی صدارت چھوڑنے اور شہباز شریف کو ’’ٹیک اوور‘‘ کرنے کے مشورے دے رہے ہیں، تو خیر ہم عرض کر رہے تھے کہ آج کل مخالفین کی نظریں چونکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر شکست و ریخت پر مرکوز ہیں۔ اس لئے ایم کیو ایم میں کیا ہو رہا ہے ادھر لوگوں کا دھیان نہیں جا رہا، حالانکہ ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان دونوں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ فاروق ستار پر یہ الزام تو اسی وقت سے لگ رہا ہے جب سے انہوں نے لندن سے رابطے منقطع کرکے اپنا الگ وجود قائم کیا ہے لیکن ان کے مخالفین کیا بعض ساتھی بھی آج تک نہیں مان رہے کہ وہ ایم کیو ایم لندن سے بالکل الگ ہوچکے ہیں۔ یہی الزام پارٹی سے نکالے جانے کے بعد سلمان مجاہد نے ڈاکٹر فاروق ستار پر لگایا ہے ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار جو کچھ بھی کرتے ہیں، لندن کی ہدایات کی روشنی میں کرتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی میں کوئی دھڑے بندی نہیں اور نہ ہی ہمارا لندن سے کوئی رابطہ ہے۔ سلمان مجاہد پارٹی سے نکالے جانے کے بعد اس طرح کے الزام لگا رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کا نیا دھڑا وجود میں آنے کی جو باتیں ہو رہی ہیں، اگر یہ درست ثابت ہوگئیں تو یہ پانچواں دھڑا ہوگا جو مہاجرین کے نام سے سیاست کرے گا، اس وقت پاک سرزمین پارٹی سمیت چار دھڑے مہاجروں کی سیاست کر رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ مضبوط اور موثر تو وہی دھڑا ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار ہیں، کیونکہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کا تعلق بھی اسی دھڑے سے ہے جبکہ میئر کراچی وسیم اختر بھی اسی کے ساتھ ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ جو عرف عام میں حقیقی کہلاتی ہے، آفاق احمد کی قیادت میں کام کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم لندن میں تازہ ٹوٹ پھوٹ کے بعد جو نیا دھڑا بن رہا ہے، اس میں تمام دھڑوں سے ٹوٹ کر لوگ شامل ہوں گے۔ ویسے یہ حقیقی شکست و ریخت ہے یا کوئی نئی حکمت عملی، یہ ابھی معلوم نہیں، کیونکہ ایم کیو ایم کی سیاست کرنے والے ایسے داؤ پیچ کھیلتے رہے ہیں۔