سید خورشید شاہ کی تجویز، مناسب قابل عمل اور جمہوری ہے

سید خورشید شاہ کی تجویز، مناسب قابل عمل اور جمہوری ہے
سید خورشید شاہ کی تجویز، مناسب قابل عمل اور جمہوری ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:چودھری خادم حسین:

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پھر کہا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دہشت گردی، امن و امان اور فوجی عدالتوں کے قیام جیسے اہم مسائل پر اراکین کو اعتماد میں لے اور ان کی آرا سے فیصلے کرے، وہ یہ تجویز پہلے بھی پیش کرچکے لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور اب ان کو دہرانا پڑا ہے، حالانکہ یہ بات بہت مناسب اور جمہوری ملک میں یہی طریقہ ہوتا ہے، اب تو براہ راست ہمسایہ ملک افغانستان کے صدر کی لابی سے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کے بعد ان کو سبق سکھانے کے لئے سرجیکل سٹرائیک کئے، اس کے ساتھ ہی افغان حکومت پر واضح کیا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کے لئے اہم مسئلہ ہے اور دونوں ہی متاثر ہیں اس لئے مل کر مقابلہ اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہئے، نہ معلوم حکومت کیوں یہ تجویز قبول نہیں کررہی، حالانکہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے لئے بھی پارلیمانی پارٹیوں سے لابنگ کررہی ہے، اس سے بعض حلقوں نے یہ تاثر بھی دینا شروع کردیا ہے کہ حکومت خود بھی توسیع نہیں چاہتی اور ٹال مٹول کررہی ہے ورنہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے تحفظات کے حوالے سے بات کرکے تسلی کرائی جاسکتی تھی، یوں بھی دونوں پارٹیاں حالات حاضرہ میں دہشت گردی کے حوالے سے تعاون پر آمادہ ہیں، خورشید شاہ تو اپنی جگہ خود آصف علی زرداری نے تعاون کی بات کی ہے۔ خورشید شاہ تو الزام سر پر لے کربھی حقائق سے منہ نہیں موڑتے اور تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی نرم رویہ رکھے ہوئے ہیں، پھر معلوم نہیں کہ حکومت کیوں ہچکچا رہی ہے؟
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومتی حلقے پاناما گیٹ کا دباؤ زیادہ ہی محسوس کررہے ہیں کہ اس معاملے میں قانونی سے زیادہ اخلاقیات کا مسئلہ ہے اور شیخ رشید اسی لئے کہہ رہے ہیں کہ وہ کیس ہار کر بھی جیت جائیں گے، مقصد یہ کہ عوامی سطح پر وہ اتنا موثر پروپیگنڈہ کر چکے کہ ان کی بات کو درست تسلیم کیا جانے لگا ہے، ہمارا خیال یا قیاس تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نے ابتدائی دوبرسوں میں جو طرز عمل اختیار کیا وہ بہت مصالحانہ اور مدبرانہ تھا، لیکن پاناما گیٹ کیس شروع ہونے کے بعد سے بتدریج مسلم لیگ (ن) کے معزز ارکان تحریک انصاف کے ساتھ تو شکار میں مبتلا ہو گئے اور کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے پیپلز پارٹی سے بھی چونچ لڑا لیتے ہیں اس سلسلے میں ایک دربار یہ خبر بھی نظر سے گزری کہ وزیر اعظم نے اپنی جماعت کے راہنماؤں کو جواب نہ دینے کی ہدایت کی، خصوصاً پیپلز پارٹی کے بارے میں رویہ معتدل رکھنے کو کہا لیکن اس پر عمل نہ ہوا اور شاہ کے وفادار لمحہ ضائع کئے بغیر حملہ آور ہوتے ہیں، حتیٰ کہ اب تو عوام یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ وزرا اور اراکین نے اپنے اپنے فرائض تقسیم کئے ہوئے ہیں اور وہ کسی سے مشاورت بھی گوارا نہیں کرتے اور جھٹ جوابی حملہ کردیتے ہیں، حالانکہ متعدد بیانات کا جواب نہ دینا ہی بہتر ہوتا، اگر یہ حضرات مسلسل یہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو پھر یقیناًقیادت کی آشیر باد ہی تصور کی جائے گی۔
معروضی حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پوری توجہ حالات کو سدھارنے کی طرف رکھی جائے اور ملک کے اندر کی فضا کو درست کرکے سیاسی استحکام پیدا کیا جائے تاہم اب تویہ محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو اپنے استحکام کا بہت زیادہ یقین ہے اور وہ حالات کی پروا کئے بغیر لفظی جنگ لڑتے چلے جارہے ہیں اور اب تو یہ بات بھی سامنے آئی کہ خواجہ سعد رفیق جیسے راہنما کی موجودگی میں انوشہ رحمن نے صحافیوں سے بھی ’’دو بدو‘‘ ہونا شروع کردیا اور ایک بڑے احتجاج کو دعوت دے دی ہے کہ وہ سمجھدار ہیں اور ان کو احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا۔
ادھر حالات تو یہ ہیں کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور اس وقت جس شدت سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا تھا پاک فوج نے اسی زور دار طریقے سے خون کا حساب لینا شروع کیااور اب پھر فضائیہ کا تعاون بھی حاصل کیا ہے، یوں ہماری مسلح افواج اور سیکیورٹی ایجنسیاں برملا نبرد آزما ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ حالت جنگ میں ہیں تو بے جا نہیں ہوگا، ادھر پوری قوم بھی بہت تحمل اور بہادری سے ان حالات کو دیکھ رہی اور دہشت گردی کے خلاف دامے، درمے اور سخنے حمائت پر کمر بستہ ہے ، اس لئے ان حالات میں تو بہت تحمل اور جذبات کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے چہ جائیکہ آپ حالات کو اشتعال تک لے جائیں،اگر آپ کا انداز سیاست یہی ہے تو اس سے تحریک انصاف کو نقصان نہیں فائدہ ہوگا، آپ خود ہی اپنے ’’طرز‘‘ پر غور فرمالیں ہم جو عرض کریں گے تو شکائت ہوگی۔
یہ سطور گواہ ہیں کہ ہم تکرار کے ساتھ قومی امور پر قومی اتفاق رائے کے حامی اور اس کی تلقین اور وکالت کرتے چلے آرہے ہیں اور اب پھر یہی کہتے ہیں کہ ملک وقوم کی بہبود اور بہتری کے دعوے کا عملی ثبوت دیں اور سب لوگ دشمن کے مقابلے میں متحد نظر آئیں۔

مزید :

تجزیہ -