جیمز ڈوبنز کی آمد-افغانستان کے حوالے سے تبادلہ خیال

جیمز ڈوبنز کی آمد-افغانستان کے حوالے سے تبادلہ خیال
جیمز ڈوبنز کی آمد-افغانستان کے حوالے سے تبادلہ خیال
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:- چودھری خادم حسین
ملکی سیاست کے تو ڈھنگ نرالے ہیں ہی یہاں امریکہ بھی اپنی ڈپلومیسی کو سہ رخی رنگ دیئے چلا جا رہا ہے۔ چند روز قبل یہ اطلاع تھی کہ امریکی کانگرس اور ایوان بالا کے بعض سنجیدہ حضرات کا خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے بالکل ہی نہیں نکلنا چاہئے بلکہ 2016ءکے بعد بھی اپنے فوجی دستے وہاں رکھے کہ ابھی افغان فوج اس قابل نہیں ہوئی کہ طالبان کا دوبدو مقابلہ کر سکے۔ ایک تھنک ٹینک نے تو یہ بھی یقین ظاہر کیا ہے کہ یہ صرف پاکستان ہے جو امریکی افواج کے جانے کے بعد طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے اور امریکہ کو پاکستان سے تعلق کو زیادہ مضبوط کر کے افغان مسئلہ پر اس کی حمایت حاصل رکھنا چاہئے تاہم یہ اطلاعات اپنی جگہ ہیں کہ اوباما انتظامیہ میں ایسے حضرات ہیں جو بھارت کو بھی اس میں رکھنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اسے بہتر پوزیشن دینا چاہتے ہیں کہ افغانی پاکستان کی نسبت بھارت کے قریب ہیں اسی نوعیت کی رپورٹوں اور کوششوں کے پس منظر میں امریکہ کے خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبن افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان آئے اور تعاون کے حوالے سے بات چیت کی وہ یہاں سیاسی اور فوجی قیادت سے ملے تو ان کو پاکستان کے واضح نقطہ نظر سے آگاہ کیا گیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بے پناہ قربانیاں دے رہا ہے۔ پاکستان کے پاس افغان رویئے کے بارے میں شکایات کا ڈھیر ہے اور پاکستان کی طرف سے ثبوتوں کے ساتھ جیمز ڈوبن سے بات کی گئی کہ سرحد پار سے پاکستان کی چوکیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ملا فضل اور ان کے ساتھی نورستان کے علاقے میں امن سے ہیں اور پاکستان میں افراتفری پھیلا رہے ہیں اس لئے امریکہ نہ صرف افغان سرحد کی طرف سے ہونے والے حملہ آوروں کو روکے بلکہ ملا فضل اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان کے حوالے کرے۔ پاکستان کی طرف سے واضح کیا گیا کہ پاکستان بلالحاظ سب کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور نہ صرف کالعدم تحریک طالبان بلکہ حقانی گروپ سے بھی نبرد آزما ہے۔ جو اطلاع میڈیا کو مہیا کی گئی اس کے مطابق جیمز ڈوبن کو حالات کا اندازہ ہو گیا اور وہ تعاون پر آمادہ ہیں تاہم امریکی ڈپلومیسی کے بارے میں حتمی پیشگوئی مشکل ہے۔ بہرحال مذاکرات کو مثبت قرار دیا جا رہا ہے ، خیال ہے کہ مستقبل میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہو گا۔
ادھر باوثوق ذرائع ایسی اطلاعات مہیا کر رہے ہیں کہ ادارہ منہاج القرآن کی آمدنی کے حوالے سے بات دور تک پہنچ رہی ہے اور ایف آئی اے نے سراغ لگایا ہے کہ کروڑوں ڈالر ہنڈی کے ذریعے آئے جو منہاج القرآن کے ترقیاتی اور دینی شعبوں پر خرچ نہیں ہوئے یہ رقم ملک میں بے اطمینانی پھیلانے پر خرچ کی یا غبن کر لی گئی۔ ایف آئی اے نے بلٹ پروف ائیرکنڈیشنڈ ٹریلر اور بلٹ پروف گاڑی کی خریداری کے حوالے سے بھی تحقیق کی کہ اس کے لئے رقوم کہاں سے آئیں۔ ایف آئی اے کی زیادہ توجہ غیر قانونی طریقے سے زرمبادلہ کی آمد و رفت پر ہے۔
جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کا تعلق ہے تو ان کے خلاف بھی الزام کی ایسی نوعیت ہے کہ بلٹ پروف گاڑی کہاں سے خریدی؟ان کے خلاف ذاتی حیثیت والے موقف کے بارے میں دیکھا وہ کہتے ہیں کہ یہ زیادہ وقت طلب ہو گا۔ سیکریٹری جنرل رحیق عباسی نے کہا کہ منہاج القرآن کی آنے اور خرچ ہونے والی تمام آمدنی کا پورا ریکارڈ موجود ہے اور ان کے صاحبزادے کی نگرانی میں آیا۔ یہ انتقامی کارروائی ہے اور ہم کسی سے خوفزدہ بھی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری اب تو انقلاب کی پر تیں کھول رہے اور محتاط بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کے دور اقتدار میں اختیارات نچلی سطح تک جائیں گے اور قریباً ایک لاکھ جو ان تعلیم یافتہ مقامی سطح پر وزیر بنیں گے ایسی باتوں کے باوجود وہ متبادل نظام اور موجودہ حکومت کو ہٹانے کاکیا پروگرام رکھتے ہیں یہ نہیں بتا رہے نہ ہی فی الحال عمران خان کے ساتھ اتحاد کا کوئی اشارہ دیا ہے۔ آنے والے جمعہ کو وہ ایک کانفرنس کا انعقاد چاہتے ہیں جس سے بیرونی ممالک سے آنے والے دانشور بھی خطاب کریں گے۔ یہ بھی ان کا اپنا طریق کا رہے۔
تبادلہ خیال

مزید :

تجزیہ -