ڈھلوان کا سفر پیپلز پارٹی سمٹ سمٹا کر سندھ تک محدود ہو گئی

ڈھلوان کا سفر پیپلز پارٹی سمٹ سمٹا کر سندھ تک محدود ہو گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
  آزاد کشمیر کے تازہ ترین انتخابی نتائج سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نام نہاد سوشل میڈیا کی گپ شپ پر انحصار کرکے نہ کوئی سیاسی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ کوئی انتخاب جیتا جاسکتا ہے کیونکہ جو لوگ ٹھنڈے کمروں میں آرام دہ صوفوں پر دراز ہوکر سوشل میڈیا پر سنہری حروف پر مشتمل عبارتیں پوسٹ کرتے رہتے ہیں ان کا ٹھوس سیاسی زمینی حقائق سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا، اس لئے اگر کسی نے سوشل میڈیا کی چند عبارتیں پڑھ کر یہ اندازہ لگالیا تھا کہ پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف جیت رہی ہیں تو اس نے سیاسی طور پر بیدار مغز اس خطے کے لوگوں کی سیاسی سوجھ بوجھ کا درست اندازہ نہیں لگایا تھا۔ آزاد کشمیر کے خطے میں سیاسی بیداری پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے، یہاں روایتی طور پر نہ تو کوئی جاگیر ہے اور نہ جاگیرداروں کا کوئی وجود ہے جنہوں نے پاکستان خصوصاً سندھ کی سیاست کو جکڑ رکھا ہے۔ ان گپ شپ کرنے والوں کو شاید معلوم ہی نہیں کہ آزاد کشمیر کے ووٹروں کو ہانک کر کسی مخصوص امیدوار کے حق میں ووٹ نہیں ڈلوائے جاسکتے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ چودھری عبدالمجید کی کابینہ کے سارے وزیر ہارگئے ہیں، اسمبلی کے سپیکر بھی ہارگئے ہیں، صدر آزاد کشمیر کی بیٹی کو بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان جو متعدد بار صدر اور وزیراعظم رہے اب ان کے صاحبزادے سردار عتیق کو صرف اتنی کامیابی ملی ہے کہ وہ اپنی نشست سمیت تین نشستیں جیت سکے ہیں۔ وہ قائد حزب اختلاف کا کردار ہی ادا کر پائیں گے۔ بیرسٹر سلطان محمود بھی ہار گئے ہیں، جو روایتی طور پر سردار قیوم اور ان کی جماعت کے ہمیشہ مخالف رہے لیکن اب انہوں نے جس جماعت (تحریک انصاف) کے حق میں اپنا وزن ڈالا وہ مسلم کانفرنس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ رہی تھی۔ یہ سیاسی قلابازی بھی بیرسٹر کے کسی کام نہیں آئی اور 25 سال میں پہلی مرتبہ ہارگئے، اب کل وہ کس پارٹی میں جائیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے البتہ یہ امکان ضرور ہے کہ اگلی فصل بہار کے آنے تک وہ تحریک انصاف کا دامن بھی چھوڑ دیں گے۔
جن لوگوں نے پاکستان میں میاں نوازشریف کی حکومت اور ان کی جماعت کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کر رکھا ہے، شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس گرم بازاری کا اثر آزاد کشمیر کے الیکشن پر بھی پڑے گا، لیکن یہاں تو سب تدبیریں الٹ ہوگئیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اندازوں سے بھی زیادہ نشستیں حاصل ہوگئیں۔ عام خیال یہ تھا کہ اسے اتنی نشستیں تو ضرور حاصل ہو جائیں گی کہ وہ سادہ اکثریت سے حکومت بناسکے لیکن یہاں تو سارے برج الٹ گئے۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی کرشمہ ساز شخصیت کی جوشیلی تقریریں بھی کسی کام نہ آئیں۔ وہ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم نہ بھی چلاتے تو دو نشستیں شاید پھر بھی مل جاتیں۔ انتخابی مہم میں ان کی للکار تو ضرور سنی گئی لیکن ووٹروں کے کانوں میں اس للکار نے کوئی ایسا رس نہیں گھولا کہ وہ جوق در جوق پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے نکل پڑتے۔ کرکٹ میں ایک اصطلاح ’’وائٹ واش‘‘ استعمال ہوتی ہے، انتخابی نتائج کے بعد اس کا اطلاق پیپلز پارٹی پر بھی کیا جاسکتا ہے کہ پارٹی کا آزاد کشمیر سے عملاً صفایا ہوگیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی ناکامیوں کا سفر 2013ء کے عام انتخابات سے شروع ہوا تھا۔ ان انتخابات میں پارٹی وفاق، کے پی کے، بلوچستان، پنجاب ہر جگہ سے ہارگئی۔ گلگت میں اس کی حکومت تھی یہاں بھی اسے شکست ہوگئی، اب آزاد کشمیر میں بلاول کے بقول ’’مودی کے یار‘‘ کی پارٹی جیت گئی ہے تو پارٹی کا عمل دخل صرف سندھ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جہاں رینجرز کے پولیس اختیارات کا تنازعہ سنگین شکل اختیار کرگیا ہے جو اگر حل نہیں ہوتا تو کوئی بھی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
شعیب بن عزیزکا ایک سدا بہار شعر یاد آ رہا ہے
خواب و خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہے جیسا بھی یہاں نہیں رہنا
لیکن کچھ لوگ خواب و خواہش کے درمیان زندہ رہنے کو ہی اوج کمال سمجھتے ہیں۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر بھی ایسی ہی دنیا کے باسی تھے، جب وہ گورنر تھے، وہ مسلم لیگ (ن) کو جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا کرتے تھے، ان کی دوسری خواہش یہ تھی کہ وہ لاہور کو لاڑکانہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ کیا مسلم لیگ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے، آزاد کشمیر سے پہلے یہ پارٹی گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کو ہرا چکی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب، بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور اب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور لاہور، لاڑکانہ نہیں بن سکا۔ گورنر تاثیر نے اپنی گورنری کے دور میں ایک اور خواہش پالی تھی کہ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کی جاسکے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے وفاق سے یہ کہہ کر گورنر راج لگوایا کہ اس طرح مسلم لیگ (ن) کی جو تھوڑی بہت اکثریت ہے وہ ختم کی جاسکے گی۔ پورے دو ماہ کے گورنر راج میں ایک خاتون رکن کے سوا کوئی دوسرا رکن مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑنے اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوا اور یوں ان کی یہ خواہش دل میں ہی رہ گئی کہ وہ لاہور کو لاڑکانہ بناسکیں۔
ایک وقت تھا جب وفاق سمیت ملک بھر میں پنجاب کے سوا ہر جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پھریرے لہراتے تھے اور اگر دانش کا مظاہرہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ پنجاب میں بھی تھوڑی بہت کامیابی کی صورت پیدا ہو جاتی، لیکن ڈھلوان کا سفر شروع ہوا تو پارٹی کی حکومتیں یکے بعد دیگرے لڑھکتی چلی گئیں‘ اس کی وجہ کیا تھی؟ جیسے وزیراعظم نوازشریف نے مظفرآباد میں کہا کہ کامیابی کچھ کرنے سے ملتی ہے، پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ایسا کیا کیا تھا کہ اسے دوبارہ کامیابی ملتی؟ روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ بھی اب فرسودہ ہوچکا، اس نعرے کے سہارے اور کتنے عشروں تک سیاست کی جاسکتی ہے؟ ویسے بھی وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں کشش کھو دیتی ہیں یہی کچھ اس نعرے کے ساتھ ہوا، اب جبکہ پیپلز پارٹی ایک صوبے تک محدود ہوگئی ہے تو بحالی کی صرف ایک صورت بچی ہے کہ سندھ میں کچھ ایسے کارنامے کرکے دکھائے جائیں جن سے متاثر ہوکر لوگ اگلے انتخابات میں پارٹی کو پھر ووٹ دینے کا سوچیں اور کوئی طریقہ نہیں بچا ہے۔ مخالفین کو الزام دینے سے یہ تو ممکن ہے کہ انہیں کوئی نقصان پہنچ جائے لیکن دوسروں کی خرابیوں سے اپنے نامۂ اعمال میں تو خوبیاں جمع نہیں کی جاسکتیں۔ آزاد کشمیر میں شکست کے اسباب جاننے کیلئے اگر پیپلز پارٹی نے کوئی کوشش کی تو بالآخر وہ اسی نتیجے پر پہنچے گی کہ کوئی دوسرا نہیں پارٹی کی پانچ سالہ حکومت اس شرمناک شکست کی ذمہ دار ہے۔

مزید :

تجزیہ -