کالا باغ ڈیم، انتہائی مفید، سیاست کی نذر، اتفاق پیدا کریں

کالا باغ ڈیم، انتہائی مفید، سیاست کی نذر، اتفاق پیدا کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: چودھری خادم حسین
واپڈا کے سابق چیئرمین بزرگ انجینئر شمس الملک نے پھر کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم ضرورت ہے اور اس سے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو بھی پانی ملے گا اس سے کسی کا کوئی نقصان نہیں۔ البتہ فائدہ یہ ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی دو روپے فی یونٹ ہو گی۔ شمس الملک کے مطابق یہ ڈیم قدرتی جگہ پر ہے اور اب بھی شروع کیا جائے تو صرف چھ سال میں مکمل ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق کالاباغ اور بھاشا ڈیم بن جائیں تو دس ہزار میگاواٹ بجلی مین ٹرانسمیشن میں آ جائے گی نہ صرف لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، بلکہ بجلی برآمد بھی کی جاسکے گی۔


شمس الملک کا اپنا آبائی شہر نوشہرہ ہے اور ڈیم سے نوشہرہ کے جس حصے کے متاثر ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے اس میں ان کا گھر بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود شمس الملک تسلسل سے کالاباغ ڈیم کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے تو اب یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں وہ کسی کے ایماء پر ایسا کرتے ہیں۔ان دنوں پورا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دو چار ہے اور لوڈشیڈنگ نہ صرف صنعتی پہیئے کو متاثر کرتی ہے،بلکہ پینے کے لئے پانی کی فراہمی بھی مکمل نہیں ہوتی اور قلت ہوچکی ہے۔ شمس الملک جیسے ماہر حضرات کی رائے ہے کہ کالا باغ ڈیم بن جائے اور اس میں پانی کا ذخیرہ ہو جائے تو یہ زراعت کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا۔ ان کے مطابق فرنس آئل اور کوئلے وغیرہ سے بننے والی بجلی 12سے 16 روپے یونٹ پڑتی ہے۔ پن بجلی سب سے سستا سودا ہے۔


افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کالا باغ ڈیم جیسا مفید ترین منصوبہ سیاست کی نذر ہو گیا اور لامتناہی عرصہ کے لئے نظر انداز ہو چکا ہے، اسے سیاست کی نذر کرنے والے سابق گورنر،لیفٹیننٹ فضل حق تھے، جنہوں نے زیادہ فنڈز حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے مخالفت کی، پھر اسے اے این پی نے اپنا لیا اور بات پھیلی تو سندھ پیپلزپارٹی بھی مخالف ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا چھ سے دس ارب روپے کے خرچ سے ابتدائی کام شروع ہو گیا جسے بند کرنا پڑا اور مشینری بھی ناکارہ ہو گئی۔ یہ ایک قومی منصوبہ ہے جو سیاست نہیں، بلکہ ایک تعصب کی نذر ہو گیا ہے۔ اب تو اس کے لئے بجٹ میں کوئی فنڈز بھی مختص نہیں کئے جاتے۔
شمس الملک جب بھی موقع ملے آواز بلند کرتے ر ہتے ہیں، حکومت کو اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور بات چیت مذاکرات ماہرین کی مدد سے خفیہ ہونا چاہئیں کہ حکومت بجلی کے بحران پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ یہاں تو بجلی کے ساتھ پانی کے ذخیرے کا بھی مسئلہ ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کرغزستان کا دورہ کر کے آئے ہیں وہاں بھی انہوں نے کرغزستان حکومت کے ساتھ توانائی ہی کا معاہدہ کیا ہے، اس لئے یہ بھی کوشش کر لینا چاہئے کہ اتفاق رائے ہو، اعتراضات سن کر جواب میں تشفی کی جائے یا وہ اعتراض دور کر دیا جائے یہ بہتر راستہ ہے۔


منہاج القرآن کے مرکزی دفتر کے باہر17جون کے سانحہ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزرا کو بری الذمہ قرار دے کر ایک ایس پی اور پولیس والوں کے ساتھ عوامی تحریک کے کارکنوں کو بھی اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ توقع کے مطابق عوامی تحریک نے اس رپورٹ کو مسترد کر کے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ ان سب کو ملوث گردانتے ہیں، جبکہ تفتیشی ٹیم نے کلین چٹ دی ہے کہ کوئی شواہد بھی پیش نہیں کئے اس سلسلے میں ہماری پہلے بھی یہی رائے تھی اور اب بھی ہے کہ پاکستان میں لیاقت علی خان کی شہادت سے اب تک ہونے والی کسی بھی اہم واردات کی اصلیت سامنے نہیں آئی اور17جون والے وقوعہ کی بھی نہیں آئے گی کہ حقائق شاید ایسے ہیں کہ ذمہ دار بتانا نہیں چاہتے، ویسے عوامی تحریک کے لئے یہ سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی فوائد ہی کے لئے استعمال بھی کیا جائے گا، اس سلسلے میں بدقسمتی یہ ہے کہ متاثرین اور مرنے والے افراد کے وارثوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ایک دن وہ خود بولے تو کئی زبانوں کو تالے لگ جائیں گے۔ کیا حقائق بتائے جا سکتے ہیں؟ یہ مقتدر حضرات کے سوچنے کی بات ہے۔

مزید :

تجزیہ -