2015ء میں وزیر اعظم نواز شریف کا استقبال شاہ سلیمان نے ایئر پورٹ پر کیا
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
ہمارے دکھوں کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں، سیاسی زندگی میں کچھ تلخیاں تو ہوتی ہی ہیں لیکن ہم نے بہت سے درد خود پال رکھے ہیں اور شاعر کی طرح ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ امریکی صدر ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب آئے جس کے دو بڑے مقاصد تھے ایک تو دونوں ملکوں میں اوبامہ دور کی شکر رنجیوں کا خاتمہ جو ایران نیو کلر ڈیل کے بعد دونوں ملکوں میں پیدا ہوگئی تھیں اور دوسرا اربوں ڈالر کے دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط جس کی وجہ سے اس دورے کی بڑی غیر معمولی اہمیت بھی تھی اور سعودی عرب اپنے مہمان کے اس دورے کو یادگار بھی بنانا چاہتا تھا پھر عرب اسلامی کانفرنس کا انعقاد بھی ہورہا تھا جس میں 55 اسلامی ممالک شرکت کررہے تھے۔ چنانچہ ریاض پہنچنے پر صدر ٹرمپ کا شاہی استقبال کیا گیا، شاہ سلمان بن عبدالعزیز بنفسِ نفیس ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ امریکی صدر کو سعودی مملکت کا سب سے بڑا سول اعزاز بھی دیا گیا۔ اب ہمیں قلق یہ ہے کہ سعودی فرمانبردار ہر کسی لیڈر کا استقبال ایئر پورٹ پر جاکر کیوں نہیں کرتے سوشل میڈیا پر اسسلسلے میں بے خبری پر مبنی تبصرے بھی کئے جارہے ہیں، یار لوگ اس غم میں گھلے جارہے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کرنے تو شاہ سلمان ایئر پورٹ پر کبھی نہیں گئے، حالانکہ وزیراعظم نواز شریف جب مارچ 15ء میں سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے تو ان کا بھی ایسا ہی شاہانہ استقبال ہوا تھا اس وقت شاہ سلمان کے ساتھ ولی عہد اور نائب ولی عہد اور دوسرے سینئر حکام بھی تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے دورے اور استقبال کا بلاوجہ نواز شریف کے دورے سے موازنہ کردیا گیا اور اگر کرنا ہی تھا تو معلومات تو پوری ہونی چاہیں، ناقص معلومات کی بنیاد پر جو تبصرہ بھی ہوگا وہ بجائے خود ناقص ہوگا لیکن ہمارے ہاں یہ رجحان سامنے آیا ہے کہ تصدیق کے بغیر سنی سنائی باتوں کا سہارا لے کر من پسند تبصرے سوشل میڈیا پر کرتے چلے جارہے ہیں، چند روز قبل ایسا ہی ایک مظاہرہ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کیا تھا انہوں نے سابق معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کی ایک پرانی تصویر اس تبصرے کے ساتھ جاری کردی کہ طارق فاطمی تو وزیراعظم کے ساتھ چین کے دورے پر گئے ہوئے ہیں، جلد بازی میں یہ تصدیق بھی نہ کی گئی کہ یہ تصویر پرانی ہے اور جو بات دل میں آئی کہہ ڈالی گئی لیکن جب حقیقت حال سامنے آئی تو نعیم الحق کو معذرت کرنا پڑی، تو خیر بات ہورہی تھی صدر ٹرمپ کے استقبال کی، پاکستان میں تو یہ تبصرے ہورہے ہیں جبکہ امریکیوں کو یہ گلہ ہے کہ سعودی ایوارڈ وصول کرتے ہوئے ٹرمپ نے گردن کیوں جھکائی؟ خود ٹرمپ نے بھی ایسا ہی تبصرہ صدر اوباما پر کیا تھا جب وہ 2009ء میں سعودی عرب کے دورے پر آئے تھے، اس وقت اوباما احتراماً شاہ عبداللہ کے سامنے جھکے تھے لیکن اب جب صدر ٹرمپ نے اعزاز وصولی کرتے ہوئے اپنی گردن کو تھوڑا سا جھکایا تو یہ بات امریکیوں کو پسند نہیں آئی اور انہوں نے صدر ٹرمپ کواسی طرح ہدف تنقید بنا ڈالا جس طرح انہوں نے اوباما کو بنایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس وقت کی خاتون اول مشعل اوباما پر بھی نکتہ چینی کی تھی کہ انہوں نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران سر نہیں ڈھانپا اور اس طرح میز بانوں کے جذبات کا احترام نہیں کیا لیکن اس وقت صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی اہلیہ میلا نیا ٹرمپ نے بھی سر نہیں ڈھانپا، اگرچہ انہوں نے دورے کے دوران پر وقار لباس پہنے رکھا تاہم سر ڈھانپنے کی ضرورت محسوس نہ کی، اس طرح ان کی صاحبزادی ایوانکا نے بھی سکارف وغیرہ کا استعمال نہیں کیا۔ امریکی صدر اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت سی ایسی باتیں کہتے رہے ہیں جن کا ہدف شاید ووٹر تھے الیکشن جیتنے کے بعد ان سب باتوں پر عمل کرنا خاصا مشکل ہے، پھر انتخابی مہم کے دوران انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ صدر منتخب بھی ہوجائیں گے اگرچہ وہ پر اعتماد تھے لیکن بعض اوقات تشکیک میں بھی مبتلا نظر آتے تھے، اب صدر منتخب ہوکر انہیں اسٹیبلشمنٹ کی بہت سی باتیں ماننی پڑتی ہیں، مسلمانوں کے خلاف جو جذباتی تقریریں وہ انتخابی مہم میں کرتے رہے اب ان کا اعادہ ممکن نہیں، انہوں نے سات مسلمان ملکوں کے امریکہ میں داخلے پر جو پابندیاں لگائیں اس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی اور وفاقی ججوں نے ان کے اقدام کو خلافِ آئین قرار دیا اس کے بعد انہیں سنبھل کر آگے بڑھنا ہے، سعودی عرب کے دورے کا مقصد نہ صرف سعودی امریکہ تعلقات کی بحالی تھا بلکہ اس واسطے سے وہ باقی مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر کرنا چاہتے تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے خاص طور پر کہا کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں، انہوں نے نہ صرف اپنا طرز عمل تبدیل کیا ہے بلکہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں جو رخنہ پڑ چکا تھا اسے بھی بڑی حد تک درست کردیا ہے۔ دنیا بھر میں کھلاڑی اور دوسرے گولڈ میڈل وصول کرتے ہوئے اپنی گردن کو تھوڑا سا خم ضرور دیتے ہیں پھر میڈل کی وصولی کے بعد اس انداز سے تشکر کا بھی اظہار ہوتا ہے اس لئے ایسے مواقع کو وسیع الظرفی سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکی صدر کے دورے کے جو مقاصد تھے وہ انہوں نے حاصل کرلئے، تعلقات اب دوبارہ ٹریک پر ہیں، دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں اتنی بڑی رقم کے معاہدے غالباً اس سے پہلے کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں ہوئے۔ امریکہ میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تعلقات کی بہتری کی خاطر سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال سے صرفِ نظر کیا۔
استقبال