مذہبی جماعتوں کا اکٹھ، مذاکرات کر کے مسئلہ حل کریں

مذہبی جماعتوں کا اکٹھ، مذاکرات کر کے مسئلہ حل کریں
مذہبی جماعتوں کا اکٹھ، مذاکرات کر کے مسئلہ حل کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ، چودھری خادم حسین

دینی جماعتوں کی طرف سے اکیسویں ترمیم پر اعتراض اور مزید آئینی ترمیم کے ذریعے پہلی ترمیم میں سے مذہب کا لفظ نکالنے کے مطالبے پر نئی صورت حال پیدا ہوئی، حکومت نے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کئے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ22ویں ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے سیمینار میں دینی جماعتوں کی طرف سے جو ایک اور مطالبہ کیا گیا وہ بڑا جائز تصور کیا جا رہا ہے کہ حکومت ان مدارس کی نشاندہی کرے، جن کے بارے میں دہشت گردی میں اعانت کے ثبوت ہیں تو ان کو یہ جماعتیں از خود بند کرا دیں گی۔ دوسرے معنوں میں مذہب کا نام آنے سے دین بدنام ہوتا ہے اور مغربی ممالک کو اسلام کےخلاف پروپیگنڈے کا موقع ملتا ہے، حالانکہ دہشت گردی تو دہشت گردی ہے، جس کا کوئی مذہب نہیں۔ دینی اور مذہبی حلقوں نے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور دھمکی دی کہ بات نہ مانی گئی تو مدرسے بند کر کے جیل بھرو تحریک شروع کر دی جائے گی۔ یوں جو بھی صورت حال پیدا ہوئی یہ غیر متوقع تو نہیں۔ اس کا ادراک پہلے ہو جانا چاہئے تھا، اب تو آپریشن ضربِ عضب مُلک بھر میں کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو پھر سب کے تعاون کی بھی ضرورت ہے، چونکہ چنانچہ میں جائے بغیر سیدھے سبھاﺅ جن مدارس کے خلاف ثبوت ہیں وہ سامنے لائے جائیں اور فیصلہ کر لیا جائے، اس پر محاذ آرائی بہرحال نہیں ہونا چاہئے۔
جہاں تک دفتر خارجہ کے اس بیان کا تعلق ہے کہ کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں، ان میں جماعت الدعوة اور حقانی گروپ کے علاوہ الرشید ٹرسٹ بھی شامل ہیں۔جماعت الدعوة نے کہا ہے کہ اس کا لشکر طیبہ سے کوئی تعلق نہیں اور حافظ سعید کو پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ یہ فلاحی تنظیم ہے جو خدمت کرتی ہے اور کرتی رہے گی یہ کسی بھی قسم کی مجرمانہ کارروائی میں شریک نہیں۔ یہ صورت حال ایک طرف، دوسری طرف لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کا معاملہ ہے جن کی نقل و حرکت محدود کی گئی تاہم ان کی گرفتاری پر اتفاق ہے کب اور کیسے ؟یہ وقت آنے پر ہی معلوم ہو گا۔ اس وقت کی صورت حال کو مزید احتیاط سے نبھانے کی ضرورت ہے کہ اندرونی استحکام آپریشن کی مکمل کامیابی کے لئے ضروری ہے، انٹیلی جنس کی اطلاعات سے یوں بھی خوف کی کیفیت ہے۔
دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے پاک فوج ہر پہلو سے متحرک ہو چکی ہوئی ہے، شہروں میں ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔ اس مرتبہ انٹیلی جنس شیئرنگ باقاعدہ ہو رہی ہے۔ اکثر ملازم 18سے20گھنٹے بھی کام کر رہے ہیں، ابھی تک عوام کی طرف سے تعاون میں ہچکچاہٹ ہے کہ خوف ختم نہیں ہوا، اس سلسلے میں ہنگامی ٹیلیفون نمبر پر نامعلوم بن کر اطلاعات دی جا رہی ہیں۔ حکومت کو عوامی تحفظ کا احساس دلانا ہو گا۔
پٹرول اور توانائی کے بحران جیسے معاملات سامنے آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ توجہ آپریشن کی طرف ہی ہے اور دوسرے شعبوں اور امور کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، حالانکہ ضروری امر یہ ہے کہ محکموں کو اپنی اپنی جگہ فعال ہونا ہو گا، ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ بھتہ خوری کی وبا پھیل رہی ہے۔ پولیس ملوث بتائی جا رہی ہے، اس سے پہلے سیاسی پشت پناہی کا الزام لگتا تھا، ضروری ہے کہ ہر سطح پر امن قائم کیا جائے اور متعلقہ شعبوں کو حرکت میں لایا جائے۔ سیاسی محاذ ٹھنڈا ہے، تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آپریشن ضرب ِ عضب نے روک لیا ہے۔ حکومت کو اسے اپنی کامیابی تصور نہیں کرنا چاہئے۔ہمہ پہلو مسائل کو حل کرنا ہو گا، احتجاج سے پہلے مسئلے حل کرنے کا سلسلہ شروع کریں۔



مزید :

تجزیہ -