دیوار کے پار دیکھنے و الے بتائیں کہیں سرے محل بھی لکھا ہوا ہے کہ نہیں ؟

دیوار کے پار دیکھنے و الے بتائیں کہیں سرے محل بھی لکھا ہوا ہے کہ نہیں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ان دنوں فل فارم میں ہیں، بڑے بڑے انکشافات کر رہے ہیں، بڑے بڑے دعوے بھی کر رہے ہیں، اپنے بارے میں یہ تک فرما دیا کہ میں سیاستدان ہوں، دیوار کے اس طرف بھی دیکھتا ہوں۔ مقام مسرت ہے کہ شاہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دیوار سے دوسری طرف دیکھنے اور جھانکنے کی صلاحیت بھی ودیعت کی ہے، لیکن ایک صلاحیت کا موجود ہونا اور بات ہے اور اسے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔ شاہ صاحب بھی اس صلاحیت کا پورا استعمال نہیں کر رہے۔ انہیں دیوار کے پار یہ لکھا ہوا تو صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نااہل ہو رہے ہیں، وہ جلی حروف میں لکھا ہوا یہ بھی پڑھ رہے ہیں کہ دیوار پر عمران خان کی نااہلی لکھی ہوئی ہے، لیکن کیا اس سے آگے دیوار ختم ہو جاتی ہے یا نوشتہ ہائے دیوار دھندلا جاتے ہیں؟ یہ شاہ صاحب نے نہیں بتایا کہ وہ اس سے آگے کیوں نہیں دیکھتے؟ دیکھتے ہیں تو اظہار کیوں نہیں فرماتے۔ کیا اس دیوار پر کوئی سرے محل بھی لکھا ہوا ہے یا نہیں؟ یہ آج کی نہیں ڈھائی عشرے پہلے کی کہانی ہے جب ایک دھماکے کے ساتھ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ لندن میں ایک سرے محل خریدا گیا ہے۔ شروع شروع میں اس کی تردید کر دی گئی اور مسلسل کی جاتی رہی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دبے دبے لفظوں میں مان لیا گیا کہ ہاں یہ محل ہمارا ہی ہے۔ ہم کوئی فقرے تھوڑے ہیں کہ چند لاکھ پونڈ کا ایک محل بھی نہ خرید سکیں۔ ہم جدی پشتی رئیس، ہم خود رئیس ہیں، ہمارے باپ دادا رئیس تھے، اس لئے اگر کوئی رئیس ابن رئیس ایک اوسط درجے کا محل خریدتا ہے تو اس پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں، پھر یہ ہوا کہ اس محل میں کچھ مرمت وغیرہ کی ضرورت پڑگئی جن لوگوں نے یہ کام کیا ان کا تنازعہ بھی پیدا ہوگیا تو اس محفل کے مالکان کے خلاف برطانیہ کی عدالتوں میں مقدمہ بھی چل پڑا۔ خیر یہ بات پرانی ہوگئی، پاناما کیس کا اصل فائدہ یہ ہوا ہے کہ سرے محل جیسے فضول قصوں کو لوگ بھول بھلا گئے ہیں، ورنہ ایک زمانہ تھا اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں اور غلام گردشوں میں اس محل کے بڑے چرچے تھے، تصویریں بھی عام تھیں۔ نیب کے پاس ہیروں کے ہار کے قصے بھی گئے۔ اب یہ سب قصۂ ماضی ہوا لیکن جو لوگ یا جو سیاستدان دیوار سے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں تو اس محل کے در و دیوار نظر آنے چاہئیں۔ ایک اور سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت سیاست میں مائنس ون نہیں مائنس فور پر کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے دو تو بتا دئے، باقی دو کو قیاس آرائیوں کے حوالے کر دیا۔ یہ شاہ صاحب بتا سکتے ہیں کہ باقی دو کون ہیں؟ انہوں نے سید خورشید شاہ کی طرح یہ دعویٰ تو نہیں کیا کہ وہ دیوار کے اس پار بھی دیکھ رہے ہیں لیکن عملاً ایک بات ایسی کر دی ہے جو دیوار کے دوسری جانب دیکھنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا چانس تو ففٹی ففٹی ہے، یعنی ان کے بچنے اور نہ بچنے کے امکانات برابر ہیں لیکن وہ عمران خان کی سیاست تو سو فیصد ختم ہوتے دیکھ رہے ہیں اور جو سیاستدان دوسروں کے کہنے پر سیاست کرتا ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اب اگر جاوید ہاشمی کا یہ بیان سوشل میڈیا والوں کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ سینئر سیاستدان کی خبر لیتے ہوئے ہر حدود پار کر جائیں گے، لیکن ہاشمی نے جو بات کی ہے کیا حرج ہے کہ اس پر ذرا رک کر غور کرلیا جائے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ضرورت سے زیادہ منی ٹریل دے دی ہے، لیکن یہ ان کا دعویٰ ہے، جب نقد و نظر کی میزان میں یہ منی ٹریل تلے گی تو دیکھنا ہوگا، اس وقت پلڑا کس جانب جھکتا ہے۔ خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ انہیں جس ترازو میں تولا گیا دوسروں کو بھی اس ترازو میں تولا جانا ضروری ہے۔ ان کی یہ بات درست ہوسکتی ہے لیکن بازار سیاست میں لینے اور دینے کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں نواز شریف کو مودی کا یار کہنے والوں کی کمی نہیں لیکن ان کا ذکر ذرا کم کم ہی ہوتا ہے، جنہوں نے بھارت کے سٹیل ٹائیکون کے داماد اور یہودی پراپرٹی ڈیلر سے لاکھوں پونڈ کے عطیات لئے، خواجہ آصف نے یہ معاملہ اٹھا دیا ہے تو دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے، کہا جاتا ہے کہ 16 اپریل 2016ء کو عمران خان نے سنٹرل لندن کی ایک تقریب میں شرکت کی تھی جس میں ان کے تعلیمی ادارے کے لئے لاکھوں پونڈ کے عطیات جمع کئے گئے، جس کا انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست کے ذریعے شکریہ ادا کیا، الزام لگانے والے الزام لگاتے ہیں کہ یہ عطیہ دینے والے ہندو اور یہودی تھے، لیکن یہ بات سوچنے والی ہے کہ کیا کوئی ہندو یا یہودی ایک تعلیمی ادارے کو عطیہ نہیں دے سکتا؟ اس تعلیمی ادارے میں اگر میانوالی کے غریب غربا تعلیم پا رہے ہیں تو پھر عطیہ دینے والوں کا مذہب و مسلک جو بھی ہو یہ انسانیت کی خدمت ہے، لیکن یہ ستم ظریف دور ایسا ہے کہ سیاست میں صدقات و خیرات اور عطیات کو بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ ہم دراصل بات کر رہے تھے سید خورشید شاہ کی کہ وہ دیوار کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس کی بنا پر انہوں نے وزیراعظم کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ آج رات سے پہلے مستعفی ہو جائیں، لیکن وزیراعظم کے ایک ساتھی طلال چودھری نے انہیں جوابی مشورہ دے ڈالا کہ وہ رات بھر اس معاملے پر مزید غور کرلیں۔ خورشید شاہ قائد حزب اختلاف ہیں، اس لئے وہ قومی سیاست کی بات کرتے ہیں، حالانکہ ان کے اپنے صوبے میں جہاں ان کی پارٹی حکمران ہے، بہت سے امور ایسے ہیں جو ان کی ذرا سی توجہ سے بہتر ہوسکتے ہیں لیکن ان کی دیوار سے پار دیکھنے کی صلاحیت سندھ کی دیواروں کو بھی نہیں دیکھ پاتی۔ ہماری سیاست میں ایک اصول ہے کہ ہمیشہ دوسری جماعتوں کو غلط کہو، اپنی جماعت چاہے جو بھی کرتی رہے اس جانب دھیان نہیں جانا چاہئے۔ شاہ صاحب کے اصول کے مطابق سندھ میں کچھ بھی غلط نہیں ہو رہا، سندھ میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے، ساری بدعنوانیاں سندھ سے باہر ہیں۔ خرابی یہ ہے کہ وزیراعظم استعفا نہیں دے رہے، اگر وہ ایسا کرچکے ہوتے تو تمام خرابیاں نہ صرف دور ہوچکی ہوتیں بلکہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔
دیوار کے پار

مزید :

تجزیہ -