”میری لگدی کسے نہ ویکھی تے ٹٹ دی نوں جگ جان دا“

”میری لگدی کسے نہ ویکھی تے ٹٹ دی نوں جگ جان دا“
”میری لگدی کسے نہ ویکھی تے ٹٹ دی نوں جگ جان دا“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تجزیہ:- قدرت اللہ چودھری
”نیو یارک ٹائمز“ میں ایگزیکٹ کی ”یونیورسٹیوں“ اور ان کی ”ڈگریوں“ کی خبر بریک نہ ہوتی اور اس کے فال آﺅٹ کے نتیجے میں چند ہی دن میں ”بول“ کے صدر سے لے کر نیچے تک استعفوں کی لائن نہ لگتی تو شاید بہت عرصے تک کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ مختلف چینلوں پر صحافت کی کہکشاں کے درخشاں ستاروں میں سے کون کون بول کے آسمان پر چمکنے کی تیاریاں کر رہا ہے، یہ سب لوگ ایک ایک کر کے ”بول“ کی ٹیم میں شامل ہوئے اور بہت سے تو کئی سال سے ”پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا نیٹ ورک“ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
یہ سب لوگ بہت سے چینلوں میں کام کا تجربہ رکھتے تھے لیکن ”بول“ کی انتظامیہ نے جب ان کی خدمات حاصل کرنا شروع کیں تو یوں لگا پاکستان کا سارا ٹیلنٹ اسی چینل کا رخ کر رہا ہے۔ کئی سال تک یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ”بول“ کے مالکان کون ہیں، بس جتنے منہ اتنی باتیں، جس کے دل کو جو نام بھاتا وہ اسے مالکان کے کھاتے میں لکھ دیتا، چونکہ اس ادارے کی طرف سے بظاہر غیر معمولی مراعات کی پیشکش ہو رہی تھی، اس لئے عام خیال یہ تھا کہ پس منظر میں کوئی ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی وسیع کاروبار ہے اور یہ ایسے لوگ ہیں جو غیر معمولی وسائل رکھتے ہیں، پھر پبلسٹی کا ایک انداز بھی سامنے آیا، کہا گیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا نیٹ ورک ہے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ابھی تو یہ چینل آن ائیر ہی نہیں ہوا ، یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ اس کے پروگراموں کا حدود اربعہ اور کیف و کم کیا ہو گا۔ تو یہ فیصلہ کس نے کر دیا کہ یہ سب سے بڑا نیٹ ورک ہے؟ جب ابھی میدان میں اترے ہی نہیں تو یہ فیصلہ کیسے ہو گیا کہ یہی پہلو ان رستم پاکستان ہو گا، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بڑے ناموں کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی فرض کر لیا گیا تھا کہ ”بول“ کے آتے ہی چاروں جانب اس کا بول بالا ہو گا اس لئے پبلسٹی کا یہ انداز اپنایا گیا۔ کچھ لوگ ادارے کی گاڑیوں سے متاثر تھے اور خاص طور پر اس کا ذکر کرتے تھے کہ اس کے دفتر کے باہر گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ جن حضرات نے ”بول“ میں شرکت کی یہ سب بڑے نام تھے اور کسی زمانے میں رپورٹنگ بھی کرتے رہے تھے۔ لیکن تحقیقاتی صحافت کے یہ چمکتے ستارے یہ نہ جان سکے کہ جس ادارے کو انہوں نے جائن کیا ہے اس کے شاہانہ نہ طرز زندگی کی لئے فنڈز کہاں سے آتے ہیں یہ تو ”نیو یارک ٹائمز“ کا رپورٹر تھا جس نے ”ایگزیکٹ“ کے کاروبار کا سراغ لگایا اور پھر اہل پاکستان کو بھی پتہ چلا کہ جس چینل کی آمد کا بڑا چرچا ہے اس کی مالک کمپنی کے کاروبار کی نوعیت کیا ہے۔ یہ ساری کہانی اگر ”نیو یارک ٹائمز“ کے رپورٹر کے ہاتھ نہ لگتی تو ہماری صحافتی کہکشاں کے یہ درخشاں ستارے جواب جوق در جوق بول سے ضمیر کی خلش کے نام پر الگ ہو رہے ہیں اب تک اس ادارے سے وابستہ ہوتے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سب جہاندیدہ رپورٹروں کی تحقیقاتی رپورٹنگ کی ساری حس کہاں چلی گئی تھی کہ انہیں چند روز پہلے تک اندازہ نہ تھا کہ انہوں نے اپنا رزق کسی کمپنی سے وابستہ کر لیا ہے۔”بول“ چونکہ ابھی تک میڈیا مارکیٹ میں داخل نہیں ہوا تھا اس لئے نہیں معلوم کہ اس کی کامیابی کا حجم کیا ہوتا ابھی تک اس کے متعلق پوری معلومات بھی نہیں تھیں چونکہ ملازمین کو مراعات کے پرکشش پیکج دیئے جا رہے تھے، اس لئے پاکستان کے بعض صاحب ثروت لوگوں کے نام بھی اس سے وابستہ کئے جا رہے تھے اور کراچی دبئی کے حوالے سے ایک بڑی شخصیت کا نام بھی لیا جا رہا تھا ۔”ایگزیکٹ“ کے متعلق اس وقت عام لوگوں کے پاس جتنی بھی معلومات ہیں اس کا آغاز بہرحال امریکی اخبار کی خبر سے ہوا، پھر پاکستانی میڈیا اور اخبارات نے اپنے اپنے انداز میں اس معاملے کو اچھالا، ایف آئی اے بھی حرکت میں آئی، ادارے کے کمپیوٹر اور سافٹ ویئر بھی قبضے میں لئے گئے، ابھی سارا کچھ تحقیقات کے مرحلے میں ہے، جو الزام بھی ہے وہ وہی ہے جس کا ذکر امریکی اخبار نے اپنی خبر میں کر دیا اور وہاں سے پاکستانی اخبارات اسے لے اڑے چونکہ خوف کا ایک عنصر بہرحال مارکیٹ میں موجود تھا کہ یہ بڑی مچھلی بڑی جلدی تمام چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جائیگی اور ہو سکتا ہے کچھ بڑی مچھلیاں بھی اس کی خوراک بن جائیں اس لئے معاصرانہ چشمک نے بھی اس میں کام دکھایا اور ایک ادارہ مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی فنا کے گھاٹ اترنے کے راستے پر چل پڑا۔
بول میں ابھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے استعفے نہیں دیئے۔ ممکن ہے وہ ابھی تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہوں اور مستعفی ہونے والوں کی طرح ابھی تک ضمیر کے دباﺅ میں نہ ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر انتظامیہ اب بھی چینل کو لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو باقی ماندہ ملازمین اس کے لئے تیار ہوں بہرحال جس انداز میں آسمان صحافت کے درخشاں ستارے اکٹھے ہی مستعفی ہوئے ہیں اس سے ایک پنجابی لوک گیت کے یہ بول یاد آتے ہیں جس کا ایک مصرعہ پنجاب میں زبان زد عام ہے ”میری لگدی کسے نہ ویکھی تے ٹٹدی نوں جگ جاندا“ اب تک جنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مختلف سکرینوں کی زینت رہنے والے صحافی اچانک کہاں گم ہوگئے، انہیںبھی اب پتہ چل گیا ہے کہ یہ سارے حضرات بول کے افق پر چمکنے والے تھے لیکن ناکام رہے، قبروں کے کتبوں پر ایک پامال مصرع عموماً لکھا جاتا ہے ۔”حسرت ان غنیچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے“ کیا یہ مصرع حسب حال نہیں؟ حالانکہ یہ سب حضرات غنچے نہیں تھے، کھلے کھلائے پھول تھے، لیکن ”بول“ کی حد تک انہیں ”غنچہ“ کہا جاسکتا ہے

مزید :

تجزیہ -