تحریک انصاف کے استعفے، منظوری نہ دینا، آئین کی خلاف ورزی؟
تجزیہ: چودھری خادم حسین
آئینی ماہرین کا اصرار ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جن اراکین اسمبلی نے رکنیت سے استعفے دیئے ہیں ان کا فیصلہ نہ کرنا آئین سے انحراف ہے کہ آئین کے مطابق جونہی کوئی منتخب رکن اپنے دستخطوں سے استعفا دیتا ہے اور یہ سپیکر کے پاس پہنچتا وہ رکن اسی وقت سے فارغ ہو جاتا ہے۔سپیکر قومی اور صوبائی اسمبلی پنجاب نے اس پر صرف اس لئے عمل نہیں کیا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ تصدیق لازم ہے کہ دستخط حقیقی اور رکن نے اپنی مرضی سے کئے ہیں، جبکہ آئینی ماہرین کے مطابق سپیکر رکن اسمبلی کے حلف نامے پر کئے جانے والے دستخطوں سے موازنہ کرلیں تو یہ بھی تصدیق ہو گی۔
یہ سوال اب اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ تحریک انصاف کے تین اراکین قومی اسمبلی نے تو انکار ہی نہیں کیا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت بھی کی تھی جبکہ خود سپیکر کے بقول پانچ اراکین نے ان کو مخاطب ہی نہیں کیا اور یہ استعفے چیئرمین تحریک انصاف کے نام ہیں، بقول ماہرین یہ تو واضح طور پر نامنظور ٹھہرتے ہیں باقی اراکین کی تصدیق کا مسئلہ رہتا ہے تو کیا اسے تادیر لٹکایا جا سکتا ہے کیونکہ آج جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ سپیکر نے نوٹس بھیج کر اراکین کو بلایا وہ نہیں آئے، شاہ محمود قریشی کی طرف سے یہ مطالبہ کہ سب ایک ہی بار آئیں گے۔یہ اس امر کا بھی غماز ہے کہ ان کو اپنے اراکین میں سے بعض پر شک بھی ہے، فاضل سپیکر یہ بات مان کر سب کو بلانے کے بعد اکیلے اکیلے کو طلب کر سکتے ہیں اور یہی ان کا موقف ہے جسے تحریک انصاف تسلیم نہیں کرتی اور سب کے ایک ہی بار جانے پر اصرار کرتے ہیں، یوں یہ معاملہ جوں کا توں ہے۔
اب تو استعفوں کا معاملہ سیاسی عمل بن چکا ابھی بدھ کو وزیراعظم ہاﺅس میں پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ استعفے منظور نہ ہونے دیں کہ شاید مفاہمت کی راہ نکل آئے حالانکہ مسلسل غیر حاضری کی بنا پر بھی رکنیت معطل ہو سکتی ہے، بہرصورت یہ مسئلہ اب سیاسی ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے ڈی چوک سے دھرنا ختم کرکے نیا پروگرام دینے کے بعد حالات میں بہت بنیادی تبدیلی آئی ہے جس کے بعد اب عمران خان پر دھرنا ختم کرنے کے لئے دباﺅ بڑھ گیا ہے اور اب پھر ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر انتخابی اصلاحات سے احتساب بل تک کے عمل میں حصہ لیں، لیکن عمران خان نے اب یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مرتے دم تک رہیں گے اور وزیراعظم کے استعفے کے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ انہوں نے سپیکر کو مخاطب کر کے استعفے منظور کرنے کے لئے بھی کہا، بظاہر تو اب کسی تصدیق کی ضرورت نہیں، لیکن کیا سپیکر غیر محدود مدت تک انتظار کرنا چاہتے ہیں؟
اس وقت ملک دباﺅ کا شکار ہے ایک طرف اقتصادی حالت ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت ہے تو دوسری طرف بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر محدود لڑائی تاحال جاری ہے، جبکہ فوج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لئے خیبرایجنسی میں بھی آپریشن ہو رہا ہے، ایسے میں سول اور فوجی قیادت کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے، گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حاضر اراکین نے تو بھارتی عزائم کی پرزور مذمت کرکے یکجہتی کا بھی اظہار کیا لیکن تحریک انصاف بدستور غیر حاضر تھی اور پاکستان عوامی تحریک کی نمائندگی نہیں ہے، ہر دو جماعتوں نے اپنے اپنے طور فوج کی حمایت کی اور تعاون کا یقین دلایا لیکن بہتر عمل یہ ہوتا کہ مُلک بھر کی تمام جماعتیں کسی ایک پلیٹ فارم پر متفقہ فیصلہ سنائیں۔
سندھ میں بھی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے مفاہمت کے لئے عبدالرحمن ملک سے کہا تاہم متحدہ والے دور چلے جا رہے ہیں جبکہ ان کی طرف سے مہاجر حقوق اور صوبے کے مطالبے کی وجہ سے سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور دوسرے اہم ترین رہنما اور شخصیات بھی کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئی ہیں۔یوں صوبے میں ایک تناﺅ کی کیفیت پیدا ہو گئی، اسی میں بلاول بھٹو زرداری اب بھی اپنے موقف سے نہیں ہٹے، اگرچہ ان کی طرف سے تیزی میں کمی آئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلزپارٹی کو دباﺅ میں لانے کے لئے سید خورشید شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک دی ہے۔یہ بھی دلچسپ صورت حال ہے کہ اکیلی متحدہ حزب اختلاف میں اتنی اکثریت کی حامل نہیں کہ اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں وہ یہ تحریک منظور کرا سکے کہ اے این پی اور بعض آزاد اراکین اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں متحدہ کا ساتھ نہیں دیں گی ایک صورت یہی بنتی ہے کہ تحریک انصاف استعفے واپس لے اور متحدہ سے مل کر قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے عمل میں حصہ لے اس صورت میں بھی مقابلہ سخت ہو سکتا ہے، تاہم سب سے پہلے تو تحریک انصاف کی واپسی اور پھر متحدہ پر اعتماد کا مسئلہ ہے جو کئی بار الگ ہوئی اور پھر واپس آ گئی، بہرحال ضرورت قومی اتفاق رائے کی ہے جو نہیں ہو پا رہا۔
منظوری نہ دینا