وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے اور تحریک چلانے کے معاملے پر وکلا تقسیم
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کیلئے تحریک چلانے کے اعلان کو جذباتی اور بچگانہ قرار دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین احسن بھون نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف عہدے کا اخلاقی جواز بھلے ہی کھوچکے ہیں تاہم قانونی طور پر وہ وزیراعظم ہیں کسی بھی اقدام سے قبل وکلاء کو جے آئی ٹی کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ بار کے جنرل سیکرٹری آفتاب باجوہ نے کہاکہ وکلا کا قومی کنونشن بلا کر مشاورت کرنی چاہئے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کا مطالبہ ذاتی ہے سپریم کورٹ بار تمام وکلاء اور بار ایسوسی ایشنوں سے مشاورت کے بغیر لاہور ہائی کورٹ بار کے فیصلے کا حصہ نہیں بنے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر عارف چودھری نے وزیراعظم کے خلاف تحریک کو مسترد کرتے ہوئے ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنے کا عندیہ دیا۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے وزیراعظم کو سات دن کی ’’ڈیڈ لائن‘‘ دی تھی اور کہا تھا کہ اگر اس دوران وزیراعظم نے استعفا نہ دیا تو وکلا ایسی تحریک چلائیں گے جیسی انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کیلئے چلائی تھی۔ اس ’’ڈیڈ لائن‘‘ کے دو دن تو گزر چکے ہیں پانچ دن باقی ہیں۔ اس دوران وزیراعظم وکلاء کا مطالبہ مانتے ہوئے استعفا دیتے ہیں یا پھر ان کی تحریک کا سامنا کرتے ہیں یہ تو بعد میں معلوم ہوگا لیکن وکلا کو خود وکلاء کی جانب سے جو جواب ملا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وکلاء کی تحریک چلانے کی دھمکی محض ڈراوا ہے اور فیصلہ بھی جلد بازی میں کرلیا گیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر ذوالفقار چودھری کا تعلق حامد خان گروپ سے ہے جو تحریک انصاف کے سینئر عہدیدار ہیں۔ امکان ہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار کے عہدیداران نے ان کی محبت میں بغیر کسی تیاری کے پریس کانفرنس کر ڈالی اور وزیراعظم کے سامنے ڈیڈ لائن رکھ دی، ویسے استعفے کا مطالبہ خود عمران خان 2013ء کے الیکشن کے بعد سے مسلسل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان کا یہ مطالبہ وزیراعظم نے نہیں مانا اور چار حلقے بھی نہیں ’’کھولے‘‘ تو انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اسے حسن اتفاق کہیے کہ دھرنا دینے کیلئے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ہی دن ایک ہی وقت میں لاہور سے روانہ ہوئے اور اسلام آباد جاکر دھرنا دیدیا۔ دھرنے کی کہانی بلکہ کہانیاں تو طویل ہیں۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 76دن بعد دھرنا اٹھا لیا، جبکہ عمران خان بدستور دھرنے پر بیٹھے رہے اور کہا کہ انہیں ایک سال بھی کنٹینر پر رہنا پڑا تو رہ لیں گے لیکن استعفا لے کر جائیں گے لیکن 126 دن بعد وہ بھی مایوس ہوگئے۔ اس کے بعد جب انتخابی دھاندلی کا جائزہ لینے کیلئے کمیشن بنا تو بھی ان کا موقف تھا کہ وزیراعظم استعفا دیں کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے دھاندلی کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں لیکن یہ سب کچھ ہوا بھی اور الزام بھی ثابت نہ ہوا حتیٰ کہ وہ 35 پنکچروں کا ذکر ہی سرے سے گول کرگئے جس کی مالا وہ مسلسل جپتے چلے آ رہے تھے۔ نجم سیٹھی کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے پھر بھی عمران خان کے خلاف ثقاہت سے گری ہوئی بات کبھی نہیں کی۔ اب پانامہ کیس کے فیصلے کے نتیجے میں فاضل سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا ہے تو عمران خان کو وزیراعظم کا استعفا پھر یاد آگیا ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی بھی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو سپریم کورٹ کا سارا فیصلہ ہی مسترد کردیا ہے۔ آصف زرداری یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر کیس اعتزاز احسن لڑتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ اس پر ہمارے ایک ستم ظریف دوست کا تبصرہ تھا کہ جیسا نتیجہ انہوں نے گیلانی کے حق میں نکال لیا تھا ایسا ہی نتیجہ وہ عمران خان کے حق میں نکال لیتے۔ بات لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطالبہ کی ہو رہی تھی جس نے ججز بحالی تحریک کی طرح کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، یہ یاد رہے کہ یہ تحریک کسی بار ایسوسی ایشن کے اعلان کے نتیجے میں شروع نہیں ہوئی تھی یہ پورے ملک کے وکلاء کا فیصلہ تھا۔ تحریک چلانے کا اعلان وکلا نے ایک قومی کنونشن میں کیا تھا، بعد میں جب تحریک چلی تو پورے ملک کے وکلا اس میں شریک تھے بار ایسوسی ایشنوں سے خطاب کیلئے چیف جسٹس ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے تو لمبے لمبے جلوس ان کے ہمراہ ہوتے، راستے میں عام لوگ بھی ان کے دیدار کیلئے جمع ہو جاتے، چودھری اعتزاز احسن کو کار ڈرائیونگ کا فخر حاصل ہوتا، اس تحریک پر سیاسی اثرات مرتب نہ ہونے دیئے گئے یہاں تک کہ اگر کوئی سیاستدان بھول بھٹک کر وکلا کے اجتماع میں آنکلتا تو اسے نکال دیا جاتا، اس طرح یہ تحریک کامیاب ہوئی البتہ کامیابی کے آخری مرحلے پر مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے اس سلسلے میں کئے گئے لانگ مارچ کی قیادت ضرور کی تھی۔ لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچا تھا کہ اسے کامیابی کی نوید سنا دی گئی۔ لانگ مارچ سے پہلے لگتا تھا کہ وکلاء کی تحریک کا نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ حکومت ججوں کی بحالی سے پہلو تہی کر رہی تھی۔ اب وکلاء اگر نوازشریف کے استعفے کیلئے تحریک چلانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی صفوں میں تو اتحاد پیدا کریں اور وکلاء کنونشن کی جو تجویز سامنے ائی ہے اس پر عمل کرتے ہوئے کسی شہر میں وکلا کا کنونشن بلائیں چند وکلاء کی پریس کانفرنس کنونشن کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتی اب یہ بھی ہوگا کہ دوسری بار ایسوسی ایشنیں بھی میدان میں آئیں گی اور کسی کی طرف سے وزیراعظم کی حمایت اور کسی کی طرف سے مخالفت ہوگی اور یوں وکلاء تقسیم ہو جائیں گے ایسے میں افتخار چودھری کی بحالی جیسی تحریک خواب و خیال ہوکر رہ جائے گی۔
وکلا تقسیم