’’صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں‘‘پیپلز پارٹی میں ڈاکٹر بابر اعوان کی داستان غم
تجزیہ: ۔ قدرت اللہ چودھری
ڈاکٹر بابر اعوان بھی بالآخر پیپلز پارٹی چھوڑ گئے، پارٹی نے تو انہیں عرصہ دراز سے فراموش کر رکھا تھا لیکن شاید وہ دن بدلنے کی امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے اب آس کا پنچھی اڑگیا تھا اس لئے انہوں نے دکھی دل کے ساتھ اس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے جس میں وہ بائیس سال رہے۔ آصف زرداری صدر تھے تو وہ ان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے، اسی قربت کا نتیجہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اسلام آباد سے باہر ہوں تو صدر صاحب ان کو بڑی بے تابی سے یاد کیا کرتے تھے، بہت سی تقریبات میں دیکھا جن میں ڈاکٹر بابر اعوان شریک تھے کہ اچانک اٹھ کر چلے گئے، پتہ چلا کہ صدر صاحب نے یاد کیا ہے، ہماری گناہ گار آنکھوں نے کئی بار یہ منظر دیکھا۔ڈاکٹر صاحب کی یہ سرگرمی ایسی تھی کہ اگر الفاظ کے ذریعے اس کا نقشہ کھینچا جائے تو پوری تصویر نہیں بنتی کیونکہ یہ مناظر سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سرشاری کے اس دور میں کہا کرتے تھے کہ بہت سے لوگ آصف علی زرداری پر ’’حملہ آور‘‘ ہونا چاہتے ہیں لیکن میں دیوار بن کر راستے میں کھڑا ہوں، پہلے مجھے ہٹائیں گے تو میرے محبوب صدر (اور لیڈر) تک پہنچیں گے۔ یہ صورتحال کافی عرصے تک رہی لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات انسانوں کے درمیان دن بدلتی رہتی ہے۔ آصف علی زرداری اور ڈاکٹر بابر اعوان اس اصول سے مستثنیٰ نہیں تھے، اس لئے ان دونوں کے دن بھی بدل گئے، یہ وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ میں یوسف رضا گیلانی کا مقدمہ چل رہا تھا، عدالت نے حکم دیا تھا کہ وزیراعظم سوئس حکومت کو خط لکھ کر آصف علی زرداری کے خلاف وہ مقدمات دوبارہ کھلوائیں جو جنرل پرویز مشرف اور بے نظیربھٹو کے درمیان مشہور زمانہ این آر او کی برکت کے صدقے بندہوگئے تھے۔ عدالت نے اس این آر او کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ اس این آر او کو یوں سمجھاجائے جیسے اس کا کوئی وجود نہیں تھا، لیکن جن ہزاروں افراد نے اس این آر او سے فائدہ اٹھایا ان میں سے بعض تو موقع پاتے ہی بیرون ملک چلے گئے تھے، جو یہاں رہ گئے تھے ان میں سے اکثر نے دوبارہ عدالتوں سے رجوع کرلیا، بعض کو ریلیف بھی مل گیا۔ کچھ ایسے تھے جو این آر او سے پہلے زیر زمین تھے اس کرشمے کی بدولت بالائے زمین آئے، جنہیں ریلیف نہ مل سکا اور اس دوران این ار او حرفِ مکرر ٹھہرا وہ دوبارہ زیر زمین چلے گئے۔ آصف زرداری البتہ اس دوران صدر مملکت کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوگئے تھے عدالت میں وزیراعظم کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ صدر کو آئین کے تحت استثنا حاصل ہے اس لئے جب تک وہ صدر ہیں ان کے متعلق سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جاسکتا۔ عدالت نے یہ جواز نہیں مانا اس کے باوجود وزیراعظم نے خط نہیں لکھا بلکہ اس کے متعلق اپنے انٹرویوز، ٹی وی کی گفتگوؤں اور پریس کانفرنسوں میں اپنے اس مسترد شدہ موقف کے حق میں دلائل دینے شروع کردیئے، جب ان کے خلاف عدالت کے حکم کے تحت خط نہ لکھنے کے جرم میں توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو انہوں نے کھل کر یہ کہناشروع کردیا کہ آئین کی خلاف ورزی کی سزا موت ہے اور عدالت کی توہین کی سزا چھ ماہ قید کی صورت میں ملتی ہے اس لئے عقلمندی یہ ہے کہ عدالت کی توہین گوارا ہے، آئین کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ ان کی اس ’’آئین پسندی‘‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے انہیں 30 سیکنڈ قید کی سزا دیدی لیکن اسکا نتیجہ وہ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور پانچ برس تک نااہلی کی صورت میں بھگت چکے۔
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
گیلانی کو تو توہین عدالت لے بیٹھی لیکن ڈاکٹر بابر اعوان کا اس کیس میں پارٹی پالیسی کے مطابق بیان نہ دینے کا قصور ایسا تھا جو آصف علی زرداری نے آج تک معاف نہیں کیا۔ وہ بابر اعوان سے ناراض ہوگئے اور ایسے ناراض ہوئے کہ باید و شاید، ڈاکٹر صاحب نے انہیں راضی کرنے کیلئے جو بھی کوشش کی ناکام ٹھہری یہاں تک کہ جب صدر زرداری خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضری کیلئے بھارت گئے تو ڈاکٹر بابر اعوان بھی پرائیویٹ طور پر وہاں چلے گئے لیکن آصف علی زرداری نے اس موقع پر بھی ان سے آنکھیں چار نہ کیں، ایسا ہوتا تو شاید دل مل جاتے لیکن ڈاکٹرصاحب کا معاملہ ’’صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں‘‘ کی طرح ہوگیا۔ اس سارے عرصے میں ڈاکٹر بابر اعوان سینیٹ کے رکن بھی رہے، پارٹی نے انہیں نکالا نہ انہوں نے پارٹی چھوڑی، اگر ان سے استعفا لے لیا جاتا تو سینیٹ کی یہ نشست بھی مسلم لیگ (ن) جیت لیتی اس لئے یہ کڑوا گھونٹ پی کر پارٹی خاموش رہی، اب جبکہ ان کی سینیٹ کی چھ سالہ رکنیت ختم ہونے میں زیادہ سے زیادہ 9 ماہ باقی رہ گئے اور مارچ 2018ء میں سینیٹ کی نصف نشستوں پر انتخابات ہونے والے ہیں تو بابر اعوان نے استعفا دینے اور تحریک انصاف میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ویسے تو وہ جب سے پیپلز پارٹی میں ناپسندیدہ ٹھہرے تھے اسی وقت سے تحریک انصاف کے قریب ہوگئے تھے اور ٹی وی چینلوں پر اس جماعت کا مقدمہ لڑتے تھے، عدالتوں میں تحریک انصاف نے انہیں وکیل نہیں کیا کیونکہ اس پر بعض دوسرے وکیلوں کو اعتراض تھا، البتہ اب وہ تحریک انصاف میں باقاعدہ شامل ہوگئے ہیں۔ اس وقت بابر اعوان ہی کیا پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے نامور لوگ پارٹی کو داغ مفارقت دے رہے ہیں حتیٰ کہ آصف علی زرداری کے ذاتی دوست حسین عبداللہ ہارون کا نام بھی لیا جا رہا ہے، نفیس صدیقی نے اگرچہ فی الحال تردید کردی ہے لیکن یار لوگ ماننے کیلئے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے نفیس صدیقی بھی چلے جائیں گے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ قمر زمان کائرہ بھی عمران خان کو پسند آگئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ کائرہ صاحب بھی ان کی جماعت میں شامل ہو جائیں لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا ہے کہ وہ سیاست تو چھوڑ سکتے ہیں پیپلز پارٹی نہیں چھوڑ سکتے۔ یہی بات شوکت بسرا بھی کہتے ہیں اب کیا پتہ وہ پہلے مرحلے میں سیاست چھوڑیں اور پھر کسی مناسب موقع پر یہ کہتے ہوئے دوبارہ سیاست میں آ جائیں کہ میں نے سیاست چھوڑی تھی سیاست مجھے نہیں چھوڑ رہی یا پھر اس شعرکا سہارا لیں۔
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
یادش بخیر اپنے بزرگ سیاستدان ایئر مارشل اصغر خان جب ایئر فورس کی سربراہی سے فارغ ہوکر سیاست میں آئے تو تھوڑے عرصے بعد انہوں نے جسٹس پارٹی بنائی تھی، کافی عرصے تک وہ اس جماعت کی سربراہی کرتے رہے پھر چودھری محمد علی کی جماعت نظام اسلام پارٹی اور جسٹس پارٹی نے پاکستان جمہوری پارٹی میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا تو اصغر خان کو اس نئی جماعت میں کوئی منصب نہ مل سکا اس پر وہ اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ سیاست سے ہی تائب ہوگئے۔ کئی سال بعد جب اس کوچے کی یاد پھر آئی تو تحریک استقلال کے نام سے دوبارہ میدان سیاست میں آدھمکے۔ ایک زمانے میں وہ کونسا ایسا سیاستدان تھا جو تحریک استقلال میں شامل نہیں تھا، وزیراعظم نوازشریف اس میں تھے، چودھری اعتزاز احسن اس میں تھے، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اس کا حصہ تھے، اکبر بگتی اس میں شامل تھے، آصف فصیح الدین وردگ، خورشید قصوری، مہنازرفیع، غرض کوئی بڑا سیاستدان اس کے باہر نہیں تھا لیکن اب اصغر خان اپنی تحریک استقلال کو بھی تحریک انصاف میں ضم کرچکے۔ اصغر خان کا سیاسی عروج و زوال پاکستانی سیاست کو سمجھنے کیلئے ایک کیس سٹڈی ہے جس کا ذکر پھر کبھی ہوگا۔
صنم روٹھ جائے