اب تو بس ہوگئی،جنرل(ر)پرویزمشرف نے بھی تسلیم کر لیا!

اب تو بس ہوگئی،جنرل(ر)پرویزمشرف نے بھی تسلیم کر لیا!
اب تو بس ہوگئی،جنرل(ر)پرویزمشرف نے بھی تسلیم کر لیا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : چودھری خادم حسین

اب تو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے برملا تسلیم کر لیا ہے کہ تبدیلی کا عمل ناکام ہو گیا اور انہوں نے اس کا الزام عمران خان پر عائد کیا اورکہا کہ کپتان ”سیانے“نہیں ہیں ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک سینئر صحافی اورایم کیو ایم کے سابق ترجمان صلاح الدین حیدر کو انٹرویو دیا ۔یہ تازہ ترین انٹرویو ہے جس میں پرانی باتیں دہرائی گئی ہیں تاہم تازہ ترین بات یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کی تبدیلی میں ناکامی تسلیم کر لی ہے تا ہم یہ بھی کہا ہے کہ ایسا ہونا چاہیے اور یہ ہوگا چاہے اس میں کچھ اور تاخیرہوجائے۔ اس حوالے سے ان سطورمیں محترم پرویز مشرف کے کردار کی ایک سے زیادہ مرتبہ بات ہو چکی ہے اور اب بتدریج یہ ثابت ہو تا جا رہا ہے کہ اس گیم میں وہ پوری طرح ملوث ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی کارکردگی کو ناقص قرار دے دیا اور کہا ابھی کپتان کو سیکھنے کی ضرورت ہے وہ اناڑی ہیں۔
قارئین! یہ انٹرویو چشم کشا ہے اور اس سے بالکل واضح ہو جاتاہے کہ دھرنا گیم پلان کیا تھا اور اس کی کامیابی کاکس کس کو یقین ہے تا ہم یہ بھی اس ملک کی تاریخ کا پہلا واقع ہے کہ پارلیمانی جماعتوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کے ڈٹ جانے کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہوا کہ منصوبہ ناکام ہو کہ اس سے بہت زیادہ خلفشار ہوتا اور پھر ملک میں استحکام مفقود ہو جاتا کہ یہ ایک مثال بنتی ۔ اس سلسلے میں اب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی آئینی کمیٹمنٹ(پیمان)کو بھی داد دینا چاہیے کہ ان کی فراست کے باعث ہی یہ ممکن ہو سکا کہ فوج کا بظاہر غیرجانبدارانہ کردار بھی جمہوری عمل کے تحفظ کا ضامن بن گیا۔ اس کا اظہار اب انہوں نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر کر دیا ہے کہ فوج جمہوریت کے ساتھ ہے ۔ یوں آپ اسے جنرل کیانی کی وراثت بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے بھی پانچ سال تک اپنا کردار خوبی سے نبھایا تھا، اور اب جنرل راحیل شریف نے ادارے بچائے ہیں ۔
ڈاکٹر طاہر القادری اورکھلے ہیں وہ کہتے ہیں نواز حکومت کو اللہ نے بچا لیا۔ بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے اور اس سے ہی مانگنا بھی چاہیے تاہم دنیا میں انسانوں کے بھی تو کردار ہوتے ہیں،آج جنرل (ر) اسلم بیگ مرزا کے انٹرویو کو بھی یاد کر لیجیے کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔ اب بہت ہو چکا بہتر ہوگا کہ عمران خان اب شیخ رشید کے سحر سے نکل آئیں۔خود بھی ضد چھوڑ دیں، اور اپنی جماعت کی تنظیم نو اور خیبرپختونخوا کے صوبے کو رول ماڈل بنائیں تاکہ جب بھی انتخابات ہوں وہ کامیابی سمیٹ سکیں۔ جلدی کام نہیں ہوااب اگر تحریک انصاف واپس اسمبلی میں جائے اور متحدہ والے جذبات پر آئین کو غالب آنے دیں اور کسی نئی گڑ بڑ سے گریز کریں تو بہتر ہوگا ۔ اس سے نہ صرف ملک میں بلدیاتی نظام قائم ہو جائے گا بلکہ انتخابی اصلاحات اور احتساب کے قوانین کی منظوری ممکن ہوگی، انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اسمبلیوں کی مدت چار سال کی جا سکتی ہے یوں ایک سال از خود کم ہو جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے جو راستے جدا ہوئے ہیں تو اس میں بھی حکمت انتخابات ہی ہیں اس لئے بلاول بھٹو زرداری اور متحدہ والے دونوں کو تحمل سے کام لینا ہوگا۔ پھر سے مخلوط حکومت نہ بنائیں اور اپنی اپنی سیاست کریں لیکن منفی سیاست نہ کریں اور مثبت طریقے سے بلدیاتی انتخابات ہونے دیں تاکہ مقامی حکومتیں بن جائیںلوگوں کے کام ہوں۔
ملک کے اندر استحکام کی بھی ضرورت ہے کہ ڈالر اب 103روپے تک پہنچ گیا ہے اسے بھی واپس آنا چاہیے حکومت کو گڈ گورننس اور دوسروں کو سن کر خود کو ٹھیک کرنے اور رکھنے کا عمل شروع کرنا ہوگا ۔ اب اگلی سیاست آسان نہیں ہوگی اورنہ ہی حکومت کرنا پہلے جیسا عمل ہوگا۔ اب کام کام کام اور انصاف کرنا پڑے گا۔

مزید :

تجزیہ -