فیصلہ ہو گیا، ڈیفنس کا دھماکہ گیس سلنڈر پھٹنے کا نتیجہ تھا؟

فیصلہ ہو گیا، ڈیفنس کا دھماکہ گیس سلنڈر پھٹنے کا نتیجہ تھا؟
فیصلہ ہو گیا، ڈیفنس کا دھماکہ گیس سلنڈر پھٹنے کا نتیجہ تھا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:چودھری خادم حسین:

صوبائی حکومت نے فیصلہ کر دیا کہ ڈیفنس میں ہونے والا دھماکہ دہشت گردی نہیں، یعنی کوئی بم یا بارودی مواد نہیں پھٹا، بلکہ ایل پی جی کے سلنڈر پھٹنے سے دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اِس سلسلے میں ریسٹورنٹ کے ہیڈ ویٹر زخمی عدنان مسیح کی گواہی بھی آ گئی وہ کہتا ہے کہ سلنڈر کی گیس لیک ہوتی تھی، مالک کو کئی بار نشاندہی کی،لیکن انہوں نے ٹھیک نہیں کرایا، مالک محترم پراچہ خود بھی شہید ہو چکے ہیں اب تصدیق یا تردید کے لئے موجود نہیں ہیں، وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بجا فرمایا، لیکن سوال یہ ہے کہ دھماکہ کے فوراً بعد جو کچھ خود انہوں نے بتایا اُسے بھی تو یاد کر لیں اور اب تو پوری دُنیا میں یہ اطلاع اور خبر پہنچ چکی ہے کہ دھماکہ ٹائم ڈیوائس کا تھا اور یہ سب بھی سرکاری تفتیشی ایجنسیوں ہی کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔ بہرحال ہم صوبائی وزیر قانون کی بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ فیصل چوک(چیئرنگ کراس) کے بعد یہ دوسرا حادثہ دہشت گردی نہیں تھی۔ بہرحال اس میں اتنی جانوں کا نقصان اور کئی لوگوں کا زخمی ہونا کوئی کم نقصان نہیں،بہتر ہوتا کہ ان تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے کر تجزیہ کیا جائے اور پھر میڈیا سے بات کر کے بتایا جائے کہ اصل حقیقت یہ تھی، ہم شہدا اور زخمیوں کے ساتھ تو اظہارِ ہمدردی ہی کر سکتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ جانی و مالی نقصان کے ازالے کے لئے بھی جلد پیشرفت ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ دہشت گردی نہیں تھی اور ثابت بھی ہو گیا تو پھر یہ جو انتظامیہ اور بعض دیگر اداروں نے دہشت پھیلائی اس کا کیا جواز ہے؟ سرکاری طور پر کہا جاتا ہے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دہشت گرد اپنا نشانہ پُرہجوم مقام کو بناتے ہیں کہ نقصان زیادہ ہو، مقصد خوف و ہراس اور دہشت پھیلانا ہوتا ہے کہ دہشت گرد کہا ہی اِس لئے جاتا ہے یہ کام اگر ہم خود ہی کرنے لگیں تو ان کا تو کام ہی آسان ہو گیا اور پچھلے دو تین دِنوں میں ہم نے اپنے اقدامات کے ذریعے جو دہشت پھیلائی ہے اس کا جواب کون دے گا۔
جمعرات کی شب پولیس نے تلاشی کا جو عمل شروع کیا بلاشبہ اس میں قریباً نو افراد شبہ میں گرفتار کئے گئے،لیکن جو انداز اپنایا گیا اس نے سوال کھڑے کر دیئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹلوں کی چیکنگ کی گئی، اس اقدام کی مخالفت نہیں کی جا سکتی،لیکن طریق کار پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ طلباء اور طالبات کو باہر نکال کر جس انداز میں کھڑا کیا گیا وہ ان کی روح خشک کرنے کے لئے کافی تھا۔ یوں بھی طالبات کو کھلی جگہ پر قریباً پانچ گھنٹے تک کھڑا رکھا گیا اور تلاشی کا عمل مکمل کرنے کے بعد ہی ہوسٹل میں جانے کی اجازت دی گئی۔ دو مشکوک افراد حراست میں لئے گئے۔ اس پر پورے شہر میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ اسی طرح پولیس نے شہر کے مختلف مقامات پر اپنے انداز میں کارروائی کی،جس علاقے میں کارروائی کی گئی وہاں پولیس کی بھاری جمعیت معہ گاڑیوں(ان میں بکتر بند بھی تھیں) کے گئی، اردگرد بہت ہراس پھیلا، قذافی سٹیڈیم کے علاقے میں ہونے والی کارروائی پر اعتراض نہیں،لیکن کھانے کے لئے آنے والوں کو سرچ کرنے کاانداز پسند نہیں آیا وہ بہت خوفزدہ ہوئے، اس علاقے سے سات افراد کو حراست میں لینے کی اطلاع دی گئی جو زیادہ تر ملازم ہیں، ہمیں حیرت اِس لئے ہوئی کہ حالیہ دہشت گردی سے پہلے سی ٹی ڈی والے مسلسل کارروائی کرتے چلے آ رہے ہیں، ان کے انداز سے ایسا ہراس نہیں پھیلا حالانکہ اس شعبہ نے جتنے لوگوں کو پکڑا ان میں سے اکثریت غلط ہی نکلی اور تفتیش میں انکشاف بھی کئے، شہری پوچھتے ہیں کہ کب اصلاح ہو گی؟ یہ بھی نشر ہوا کہ سرکاری طور پر الرٹ جاری کئے گئے ، بھرمار کر دی گئی، سکولوں اور جامع مساجد کی انتظامیہ کو سیکیورٹی کا انتظام خود کرنے کے لئے کہا گیا۔ گزشتہ روز (جمعہ) نماز کی ادائیگی کے لئے گئے تو پولیس کے وہ دو ملازم بھی نہیں تھے جو معمول کے مطابق ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، مسجد انتظامیہ نے اپنے طورپرسارے دروازے بند کر کے صرف ایک دروازے سے آمد کی اجازت دی؟ اور گیٹ پر ان حضرات کو کھڑا کیا جو نمازیوں کو پہچانتے بھی ہیں یہ حضرات ہی ایسے لوگوں کی تلاشی بھی لیتے رہے جو ناواقف محسوس ہوئے، سکولوں کا جہاں تک تعلق ہے تو متعدد سکول بند رہے۔ یہاں بھی سوال کیا جاتا ہے کہ نجی سکولوں کی جو بھرمار ہے اس کی اجازت کس نے دی۔ ان کو کنٹرول کیوں نہیں کیا گیا اور کیوں یہ مارکیٹ کی طرح شہر میں پھیلے ہوئے ہیں؟ کس کس مسئلے کو پولیس سے حل کرائیں گے۔ متعلقہ محکموں کا احتساب کریں جن کی کوتاہیوں یا ’’جیب گرم‘‘ ہونے کی وجہ سے یہ سب ہوتا اور تجاوزات بھی بڑھتی جاتی ہیں، نجی سکولوں نے تو گرین بیلٹوں، فٹ پاتھوں، حتیٰ کہ سڑکوں پر بھی قبضہ کر لیا ہوا ہے۔
ہم پولیس ملازمین کی جان ومال کو بھی مقدم جانتے اور ان کے لئے دُعا گو بھی ہیں، لیکن یہ تو بتایا جائے کہ یہ حضرات اگر ساری قوت اپنی حفاظت پر لگا دیں گے تو شہریوں کا تحفظ کون کرے گا؟پولیس نے اپنے دفاتر اور تھانوں کے سامنے بیریر لگانے اور سڑکیں بند کرنا شروع کر دی ہیں۔ پولیس لائن کے باہر ایک پوری سڑک پر قبضہ ہو گیا۔ یہاں سے ٹریفک اتنی پھنس کر اور جام ہو کر گزرتی ہے کہ کسی تخریب کاری کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ اب تو تھانوں کے دروازوں کے سامنے جہاں بھی سڑک ہے اس پر سیکیورٹی کے نام پر قبضہ کر کے اسے دو اطراف سے بند کر دیا گیا ہے۔ تھانہ مصطفےٰ ٹاؤن بھی اس کی مثال ہے۔ہماری درخواست اور گزارش ہے کہ آپریشن ردّالفساد کو کامیاب بنانا ہے تو عوام کو پریشان اور خوفزدہ کرنے کی بجائے ان کا تعاون حاصل کریں اور بہتر حکمت عملی کے ذریعے حالات پر قابو پائیں۔

مزید :

تجزیہ -