سینئر رہنما پیپلز پارٹی چھوڑ رہے ہیں،پنجاب’’واپس‘‘لینے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا؟

سینئر رہنما پیپلز پارٹی چھوڑ رہے ہیں،پنجاب’’واپس‘‘لینے کا خواب کیسے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

سیاست میں حرفِ آخر تو کوئی بات نہیں ہوتی، پاکستانی سیاست تو ہر لمحے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ سیاستدان بھی پارٹیاں بدلنے کو برا نہیں سمجھتے اور سیاسی وابستگیوں کے پیمانے بھی ہر آن بدلتے رہتے ہیں لیکن اگر گجرات کے نوابزادہ غضنفر علی گُل پیپلز پارٹی کے ساتھ تیس سال پرانی وابستگی کو خیر باد کہہ دیں تو یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ پیپلز پارٹی کے لئے بھی اور نوابزادہ کیلئے بھی، وہ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، وزارت کے مزے بھی لوٹ چکے، مختصر عرصے کیلئے (وزیراعظم) یوسف رضا گیلانی کے مشیر بھی رہے، اب اگر انہوں نے پارٹی چھوڑ دی ہے تو جائزہ لینا پڑے گا کہ کیا وہ اپنی اس جماعت کیلئے فالتو ہوگئے تھے جسے انہوں نے تیس برس پہلے جائن کیا تھا؟ یا پھر یہ کہ پارٹی کے اندر انہیں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آیا تو انہوں نے اسے خیر باد کہہ دیا، اگر ان کے پارٹی سے کوئی اختلاف تھے تو کیا وہ اس سطح پر پہنچ گئے تھے کہ ان کے حل ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تھا، یا پارٹی میں انہیں نظر انداز کیا جارہا تھا جس کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑنے ہی میں عافیت جانی، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا ان کی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی تھی اس خوشگوار ملاقات کی تصویریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں، اس وقت بھی بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پارٹی چھوڑنے والے ہیں لیکن چیئرمین نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا ہے، عام خیال یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ان ساتھیوں کو واپس لانے کیلئے کوشاں ہے جو کسی وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے، بلاول نے اس ضمن میں کئی اعلانات بھی کئے لیکن محسوس ایسے ہوتا ہے کہ یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں ورنہ نوابزادہ غضنفر علی گُل جیسا جیالا کبھی پارٹی نہ چھوڑتا۔
گجرات کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ غضنفر علی گُل کے بڑے بھائی نوابزادہ مظہر علی مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں۔ اسی طرح نوابزادہ ظفر مہدی کے صاحبزادے حیدر مہدی بھی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں،باخبر حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اگلے الیکشن میں نوابزادہ غضنفر علی گُل کو پارٹی ٹکٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ ان کے بھائی کیلئے تو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ پکا ہے اس لئے ایک ہی گھر میں دو بھائی ایک ہی اسمبلی کی رکنیت کے امیدوار نہیں ہوسکتے۔ اسی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی کے لئے غیر متعلق ہوتے جارہے تھے اور پارٹی میں بھی خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے تھے۔ 2013ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہوئی تھی اسی طرح اب بھی امکان یہی ہے کہ دونوں پارٹیاں مل کر الیکشن لڑیں، اسلئے نوابزادہ گُل نے الیکشن سے پہلے ہی اپنے راستے جدا کرلئے ہیں وہ اگلا الیکشن این اے 104 سے لڑنا چاہتے ہیں، لیکشن کیا وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں گے یا آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں گے، یہ بات ابھی طے نہیں ہوئی۔ گجرات کے ملحقہ ضلع منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی وزیر نذر گوندل کے بارے میں ایسی اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ وہ بھی پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنے والے ہیں۔ چند روز قبل صوبہ خیبر پی کے سے سابق ایم این اے نور عالم نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو عمران خان نے بڑی گرمجوشی سے ان کے گلے میں پارٹی کا پٹکا ڈالا اس موقع پر نور عالم کا کہنا تھا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی اس لئے چھوڑی کہ پارٹی میں کرپٹ لوگوں کو آگے لایا جارہا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نور عالم کے ساتھ نذر گوندل نے بھی عمران خان سے ملاقات کی تھی جنہیں دیکھ کر تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ وہ اپنی پارٹی میں ان کی شمولیت کے لئے چشم براہ ہیں لیکن نذر گوندل کا کہنا ہے کہ ان کی عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اور جو تصویر اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہے وہ جعلی ہے، لیکن انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کو چھوڑتے ہیں تو تحریک انصاف میں شمولیت کا آپشن ان کے پاس موجود ہے، مسلم لیگ (ن) میں وہ جا نہیں سکتے کہ وہ اس جماعت کی سیاست کے ناقد ہیں بلکہ انہیں گلہ ہے کہ آصف علی زرداری نے جو ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی ہے اس کی وجہ سے پنجاب میں پارٹی کی پوزیشن متاثر ہوئی ہے۔ آصف علی زرداری نے کچھ عرصہ قبل یہ نعرہ مستانہ بلند کیا تھا کہ وہ پنجاب ’’واپس‘‘ لیں گے، چند جلسوں میں ان کی تقریر کا انداز بھی بڑا جارحانہ تھا، انہوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اب سخت پالیسی اختیار کی جائیگی، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) مارچ 2018ء میں سینیٹ کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرکے بیٹھی ہوئی ہے اس لئے وہ قبل از وقت الیکشن نہیں کرانا چاہتی لیکن ہم اسے مجبور کردیں گے کہ اسی برس الیکشن کرائے، پارٹی کے دوسرے لیڈر بھی پر امید ہیں کہ الیکشن اسی سال ہوسکتے ہیں، آصف علی زرداری دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنا وزیراعظم بنانے کیلئے پر امید ہیں، لیکن لگتا ہے پنجاب واپس لیتے لیتے وہ پارٹی کی رہی سہی پوزیشن بھی کھو دیں گے، گزشتہ ہفتہ دس دن کے اندر یہ تبدیلی آئی ہے کہ سابق وزیر اطلاعات فردوش عاشق اعوان کے پارٹی چھوڑنے کی خبریں آچکی ہیں، انہوں نے سیالکوٹ میں تحریک انصاف کی مقامی قیادت سے ملاقات بھی کی تھی لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے بھائی نے ان کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کی مخالفت کی اسلئے ان کا معاملہ فی الحال طے نہیں ہوسکا۔ غضنفر علی گُل پارٹی چھوڑ گئے اور نذر گوندل چھوڑنے والے ہیں، ان حالات میں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ کیا پنجاب واپس لینے کی سکیم کامیاب ہوگی یا فلاپ ہوجائیگی، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے آصف علی زرداری نے یہ سیاسی نعرہ لگایا دیا تھا۔ اس وقت جب پارٹی کے سینئر رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں پنجاب کو واپس لینے کا خیال خواب ہی نظر آتا ہے، لاہور میں انہوں نے حال ہی میں پارٹی رہنماؤں سے جو ملاقاتیں کیں ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی کم بیک کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں آصف علی زرداری کے دعوے محض سیاسی بیان نظر آتے ہیں۔

مزید :

تجزیہ -