سراج الحق نے بونیر کے جلسے میں کون سی ’’آئینی ترمیم ‘‘ واپس لینے کا مطالبہ کیا ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی آئینی ترمیم نہ تو پیش کی گئی ہے، نہ اس پر کسی رکن نے اظہار خیال کیا ہے اور ظاہر ہے جو آئینی ترمیم کسی ایوان میں پیش ہی نہیں کی گئی، اس کی منظوری کا کیا سوال؟ لیکن یہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کون سی آئینی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ بونیر (صوبہ کے پی کے) کے ایک بڑے جلس�ۂ عام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کوئی نااہل شخص کسی صورت پاکستان اور اس کے عوام کی قیادت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا حکومت حالیہ آئینی ترمیم واپس لے‘‘۔ اس جلس�ۂ عام میں انہوں نے اور بہت کچھ کہا، ان کا جوش جذبات جوبن پر تھا، غالباً اسی لئے وہ ایک عام قانون سازی کو آئینی ترمیم کہتے رہے، چونکہ یہی الفاظ ایک سے زیادہ اخباروں میں اسی طرح رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے لفظ آئینی ترمیم ہی استعمال کیا ہوگا۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اتنا سینئر سیاستدان آئینی ترمیم اور قانون میں ترمیم کے فرق سے واقف نہ ہو یا اسے معلوم نہ ہو کہ آئین کیا ہوتا ہے اور قانون کسے کہتے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہ چکے ہیں، تنظیمی صلاحیتوں سے پوری طرح مالامال ہیں، دو بار صوبہ کے پی کے میں وزیر خزانہ (اور سینئر وزیر) بھی رہے۔ اس وقت بھی سینیٹ کے رکن ہیں، جس قانون سازی کا بڑا ’’رپھڑ‘‘ پڑا ہوا ہے، انہیں بطور سینیٹر اس وقت ایوان میں موجود ہونا چاہئے تھا، چونکہ وہ نہیں تھے۔ اس لئے ان کی غیر حاضری میں حکومت کے حق میں فیصلہ ہوگیا اور سینیٹ میں قائد حزب اختلا ف چودھری اعتزاز احسن جو ترمیم منظور کرانا چاہتے تھے، وہ ایک ووٹ کی اکثریت سے رد کر دی گئی، اب لکیر پیٹی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے ارکان سینیٹ کو شوکاز نوٹس دے رہے ہیں، تو ایم کیو ایم نے اپنے سینیٹر میاں عتیق کو کسی وضاحت طلب کئے بغیر سیدھے سبھاؤ پارٹی سے نکال دیا ہے۔ وضاحت طلبی نہ جواب طلبی، ڈائریکٹ ایکشن اسے ہی کہتے ہیں۔ کون جواب طلبیوں میں وقت ضائع کرتا رہے اور اگر جواب اطمینان بخش ہو تو پھر پارٹی سے کیسے نکالا جائے؟ کیونکہ ہماری پارٹیاں جمہوریت کا بھاشن تو بہت دیتی ہیں، جمہوریت پر عملاً یقین نہیں رکھتیں۔ ایم کیو ایم کو بھی جمہوریت پر بڑا پختہ یقین ہے، اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ عام لوگوں کی پارٹی ہے اور انہیں آگے لاتی ہے، لیکن میاں عتیق کو جس طرح نکال دیا گیا، اس سے جمہوریت کی تو بہرحال کوئی خدمت نہیں ہوتی، حالانکہ ہم نے میاں عتیق کو جب بھی کسی چینل پر سنا، اپنی پارٹی اور اپنے رہنماؤں کے لئے رطب اللسان پایا۔
چودھری اعتزاز احسن جو ترمیم کے محرک تھے، انہیں تو غصہ ہے کہ ان کی ترمیم منظور نہیں ہوسکی، ابھی تک وہ 2013ء کے انتخاب میں اپنی بیگم کی شکست کو نہیں بھول پائے تھے کہ انہیں ایک اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس وقت تو وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، اب سینیٹ میں کیا ہوا؟ اس کا بھی کوئی نہ کوئی جواز تو ہونا چاہئے تھا۔ چنانچہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہو نہ ہو یہ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہوئی ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ یہ اتنے اعلیٰ پائے کی ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ تھی کہ تحریک انصاف کے سات کے سات سینیٹر بیک وقت غیر حاضر ہوگئے، حالانکہ اگر ایک بھی موجود ہوتا اور دوسرے سراج الحق تشریف فرما ہوتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا، سراج الحق کے ایوان میں موجود ہونے کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا کہ انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ انتخابی بل میں تبدیلی ہو رہی ہے۔ آئین میں ترمیم نہیں ہو رہی، آئین میں ترمیم دو تہائی اکثریت سے ہوتی ہے اور جس پارٹی کے پاس سینیٹ میں سادہ اکثریت بھی نہیں اور جسے ایک قانونی بل منظور کرانے کے لئے تحریک انصاف کے سات سینیٹروں کو ’’منصوبے کے تحت‘‘ باہر بھیجنا پڑا یا جو اتفاقاً باہر رہ گئے اور ایم کیو ایم کے ایک سینیٹر کو ووٹ حاصل کرنے کے لئے قائل کرنا پڑا، اسے آئینی ترمیم کرانی پڑتی تو نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے۔
سینیٹ سے انتخابی بل جس طریقے سے بھی منظور ہوا، ہوگیا، یہ کمان سے نکلا ہوا تیر ہے جو واپس نہیں آسکتا، لیکن امیر جماعت اسلامی سراج الحق بونیر کے جلسے میں گرجتے برستے رہے کہ ’’آئینی ترمیم واپس لی جائے‘‘ ان کی خدمت میں عرض ہے حضور آئینی ترمیم تو کوئی ہوئی ہی نہیں، واپس کیا لیا جائے؟ اب اس بات کا بھی بڑا چرچا ہے کہ انتخابی بل میں کی جانے والی ترمیم کو، جس کے نتیجے میں نواز شریف کے صدر مسلم لیگ بننے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے تو فیصلہ بھی فرما دیا ہے کہ عدالتیں اس قانون کو ختم کر دیں گی۔ غالباً وہ اب بھی اپنے آپ کو چیف جسٹس سمجھ رہے ہیں، اس وقت ان کے فرمودے کی حیثیت ایک سیاسی بیان کی سی ہے، عدالتی فیصلے کی نہیں۔ جس انتخابی بل میں سینیٹ نے ترمیم کی ہے، وہ عام قانون سازی ہے۔ یہ آئینی ترمیم کا معاملہ نہیں جسے سراج الحق واپس لینے کا مطالبہ بھرے جلسے میں کر رہے ہیں، یہ معاملہ جب عدالت کے روبرو پیش ہوگا۔ وہ جائزہ لے لے گی اور جو بھی مناسب سمجھے گی، فیصلہ کر دے گی، لیکن سیاست دانوں کا یہ تو فرض ہے وہ جوش جذبات میں آئین و قانون کے فرق کو تو ملحوظ رکھیں، دونوں ایک چیز نہیں ہیں، لیکن جب جذبات کی رو میں بات کرنا ہو تو جو جی میں آئے کہہ دیا جاتا ہے۔
کون سی آئینی ترمیم