لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا عدالتیں آزاد ہیں

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا عدالتیں ...
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا عدالتیں آزاد ہیں
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
                 حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان دودن کے تعطل کے بعد مذاکرات کا چوتھا دور شروع ہوگیا ہے، جوتاحال نتیجہ خیز نہیں ہوسکا، مذاکرات جاری رکھنے پر تو اتفاق ہے لیکن بند تالے کی چابی ابھی تک نہیں مل سکی۔ فریقین اپنے اپنے مو¿قف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ڈیڈ لاک کی پہلے والی کیفیت برقرار ہے، ویسے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے چھ میں سے پانچ مطالبات تو پہلے ہی مانے جاچکے ہیں، بات ایک نقطے پر رکی ہوئی ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں پانی مرتا ہے، اور یہ نقطہ ہے تحریک انصاف کا یہ مطالبہ کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں۔ حکومت اس پر بات کے لئے آمادہ نہیں، وزیراعظم کی چھٹی کی تجویز بھی آچکی ہے لیکن ماہرین قانون اسے قابل عمل قرار نہیں دیتے، اب تحریک انصاف علامتی استعفے تک آپہنچی ہے، جہانگیر ترین کا کہنا ہے ہمارے تین مطالبات مان لئے گئے دوسے ہم دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ وزیراعظم کے استعفے کی حیثیت محض علامتی ہے کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ دھاندلی کی تحقیقات پر اثر انداز نہ ہوں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تازہ دور میں حکومت استعفے کے ضمن میں کوئی نئی تجویز پیش کرے گی یا پہلے والے مو¿قف پر ڈٹی رہے گی کہ استعفے پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔
منگل کے روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی وزیراعظم نواز شریف سے ایک اور ملاقات ہوئی ہے، چھ روز کے دوران یہ ان کی تیسری ملاقات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دونوں رہنما موجودہ صورت حال پر مسلسل تبادلہ خیال کررہے ہیں یہ امکان بھی ہے کہ مذاکرات کے تازہ دور میں اس ملاقات نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہو، مذاکرات کا آغاز بھی تو آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز کے کرشمے کے نتیجے میں ہی ہوا تھا، منگل کے روز پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور بھی بہت متحرک نظر آئے، انہوں نے کراچی میں گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقات کی، ہوسکتا ہے اس کے پس منظر میں گزشتہ رات گئے لندن سے آنے والا الطاف حسین کا بیان جس میں انہوں نے ملکی حالات پر تشویش ظاہر کی تھی اور عمران خان سے کہا تھا کہ ان کے 25ارکان قومی اسمبلی کراچی کی نشستوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں اور ضمنی الیکشن میں وہ کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرے گی، ایم کیو ایم اپنی اس پیش کش کی پوشیدہ حکمت کو تو خود ہی سمجھتی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف ان نشستوں سے کس طرح فیض اٹھا سکتی ہے ؟ وہ تو خود اپنی جتیی ہوئی نشستیں چھوڑ رہی ہے، سپیکر نے 25استعفوں کی تصدیق کردی ہے، اب اگر استعفے دینے والوں نے تصدیق کردی کہ استعفوں پر دستخط انہی کے ہیں تو یہ منظور تصور ہوں گے، ایسے عالم میں تحریک انصاف الطاف حسین کی اس دریا دلی سے کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے ویسے ایک بات اور ہے کہ جب نیا ضمنی الیکشن ہوگا تو یہ ساری نشستیں تحریک انصاف کو پلیٹ میں رکھ کر تو پیش نہیں کردی جائیں گی، مخالفین بھی تو ہوں گے، ایسے میں ضروری نہیں کہ تحریک انصاف اسی آسانی سے یہ ساری نشستیں جیت جائے جتنی آسانی سے ایم کیوایم جیت جاتی ہے، تحریک انصاف کے امیدوار تو اس ٹیکنالوجی سے بھی واقف نہیں جو الیکشن جیتنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔
دوسری جانب لاہور میں بیک وقت دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے حکومت پر ایک نوعیت کا دباﺅ آگیا ہے ایک فیصلہ تو لاہور ہائی کورٹ کا ہے جس میں ایڈیشنل سیشن جج کے اس فیصلے کے خلاف درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں جس میں انہوں نے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت 18افراد کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا،لاہور ہائی کورٹ نے درخواستیں مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ قرار دیا ہے کہ فی الحال کسی گرفتاری کی ضرورت نہیں۔ دوسرے ایک ٹی وی چینل نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ایک رکنی تحقیقاتی ٹربیونل کی تحقیقات کے بعض حصے نشر کئے ہیں جو حکومت کے خلاف جاتے ہیں، اس ٹربیونل کی تحقیقات کا ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ساتھیوں نے اس مفروضے پر بائیکاٹ کردیا تھا کہ ٹربیونل حکومت کے زیراثر ہے اور اس سے منصفانہ تحقیقات کی امید نہیں رکھی جاسکتی ۔ لیکن تحقیقاتی رپورٹ کے جو حصے سامنے آئے ہیں ان سے یہ بات پایہ¿ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حکومت ٹربیونل پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں، اور جولوگ اس ضمن میں خدشات کا اظہار کررہے تھے ان کی حیثیت بدگمانیوں سے زیادہ نہیں تھی، یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ اعلیٰ عدالت کے کسی جج پر اثر انداز ہونا آسان کام نہیں، اگر ہائی کورٹ کے ایک جج پر اثرانداز نہیں ہوا جاسکتا تو سپریم کورٹ کے بیک وقت تین ججوں پر اثر انداز ہونا کس طرح ممکن ہوگا، حکومت کا یہ مو¿قف بھی واضح ہوگیا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور حکومت یا کسی بھی فریق کا دباﺅ قبول نہیں کرتی۔
ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دھرنے کا اونٹ کس جانب بیٹھنے والا ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت کے مذاکرات میں صرف اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ مذاکرات جاری رکھے جائیں گے، یہ نتیجہ خیز بھی ہوں گے یا نہیں، فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضروری ہے کہ انہیں جلد ازجلد نتیجہ خیز بنایا جاسکے،
جو سیاستدان بحران کے حل کے لئے کوشاں ہیں ان میں سب سے زیادہ خوش فہم سراج الحق ہیں، ان کے خیال میں بحران حل کے قریب ہے لیکن شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ ڈیڈلاک برقرار ہے، ایسے میں سراج الحق کی خوش فہمی کی بنیاد کیا ہے؟ وہ تو خوشخبری سنانے کو بھی بے تاب ہیں۔
ادھر دھرنے جاری ہیں ڈاکٹر طاہر القادری اپنے کارکنوں کو یہ کہہ کر جوش دلارہے ہیں کہ اب بات شریف برادران کی پھانسی پر منتنج ہوگی، دوسری جانب عمران خان نے دھرنے میں جو خطاب کیا اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی، محض پرانی باتوں کی تکرار تھی،یا پھر ایکشن ری پلے تھا۔
دھرنے کے شرکا کا ہجوم کم ہورہا ہے، گزشتہ رات کارروائی کے جو خدشات تھے وہ بھی موہوم ثابت ہوئے ہیں۔ انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی، آج ڈاکٹر طاہرالقادری کی ڈیڈلائن کا وقت ختم ہورہا ہے، دیکھیں ”دمادم مست قلندر“ ہوتا ہے یا پھر وہ کوئی نئی ڈیڈلائن دیتے ہیں۔

مزید :

تجزیہ -