جوڈیشنل انکوائری رپورٹ کو عدالتیں شہادت کے طور پر قبول نہیں کرتیں

جوڈیشنل انکوائری رپورٹ کو عدالتیں شہادت کے طور پر قبول نہیں کرتیں
 جوڈیشنل انکوائری رپورٹ کو عدالتیں شہادت کے طور پر قبول نہیں کرتیں
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ :۔سعید چودھری     
لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل ٹربیونل کی سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق انکوائری رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر آگئے ہیں ۔جن کے مطابق بادی النظر میں وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو اس سانحہ سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس انکوائری رپورٹ کی کیا قانونی حیثیت ہے ، اس رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ افراد کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے اور کیا اس رپورٹ کی بنیاد پر کسی کو سزا دی جاسکتی ہے ؟قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی حیثیت ایک رائے اور سفارش کی ہے ۔ذوالفقارعلی بھٹو قتل کیس میں قرار دیا جاچکا ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ۔اسی عدالتی نظیر کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے متعدد مقدمات میں جوڈیشل انکوائری کو گواہی کے طور پر قبول نہ کرنے کی بابت آبزرویشنز آچکی ہیں ۔قانون کے تحت جوڈیشل انکوائری کا مقصد غیر جانبداری کے ساتھ انتظامیہ کو مدد اور راہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انتظامیہ اپنے لئے درست راستے کا تعین کرسکے۔جسٹس علی باقر نجفی کی انکوائری رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں 3رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اس رپورٹ میں موجود قانونی سقم بھی زیر غور لائے گی اور رپورٹ کی روح کے مطابق ایک سفارشاتی رپورٹ مرتب کرے گی ۔عمومی طور پر ہر جوڈیشل انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں انتظامی لائحہ عمل کی تیاری کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے اور جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی اسی سلسلے اور روایت کی ایک کڑی ہے ۔بادی النظر میں جوڈیشل ٹربیونل نے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے اس بیان حلفی کو مسترد کردیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ منہاج القرآن کے باہر ہلاکتوں سے قبل ہی انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو وہاں سے پولیس ہٹانے کا حکم دے دیاتھا فاضل ٹربیونل کی رائے میں سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ اور دیگر پولیس افسروں کے بیانات حلفی سے وزیراعلی ٰ کے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوتی ۔علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی پولیس واپس بلانے کے اپنے حکم کا ذکر نہیں کیا تھا تاہم فاضل ٹربیونل نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کن شہادتوں پر انحصار کرکے وزیر اعلی ٰ کے بیان حلفی کو ان کی خود کو بچانے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دیا ہے ۔وزیراعلی ٰنے اپنے بیان حلفی میں صرف اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ سے اس بابت بات کرنے کا ذکر کیاتھا اس حوالے سے ڈاکٹر توقیر شاہ اپنے بیان حلفی میں وزیر اعلی ٰکے اس حکم کی تصدیق کرچکے ہیں ۔دیگر افراد کے بیانات حلفی کی روشنی میں وزیر اعلی کے بیان حلفی کا جائزہ لینا فوجداری اصولوں کے مطابق نہیں ہے کیونکہ دیگر افراد سے تو ان کی اس حوالے سے بات ہی نہیں ہوئی تھی پھر وہ لوگ وزیراعلی کے ٰ پولیس واپس بلانے کے حکم کے بارے میں کس طرح بیان حلفی دے سکتے تھے۔جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا کسی شخص کو سزا دی جاسکتی ہے یا کسی شخص کے خلاف رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد ضروری ہے اس حوالے سے بھی عدالتی نظائر موجود ہیں جیسا کہ سانحہ گوجرہ کے حوالے سے مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن کی انکوائری رپورٹ میں اعلی پولیس افسر طاہر رضا کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی اور یہ رپورٹ ان کی کسی اعلی ٰ عہدہ پر تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ تھی تاہم اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعدطاہر رضا کو سی سی پی او لاہور مقرر کردیا گیا تھا ۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیاجاسکتا ،اس حوالے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انکوائری رپورٹ کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔انکوائری ٹربیونل جن شہادتوں پر انحصار کررہا ہو ان ہی شہادتوں کو مقدمہ کے ٹرائل کے دوران دوبارہ متعلقہ عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے تاہم انکوائری رپورٹ کو شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ایک ایسی انکوائری جس کے لئے ٹربیونل حکومت نے خود قائم کیا ہو ،جس میں متاثرہ فریق کے بائی کاٹ کے باعث اس کی طرف سے کوئی شہادت بھی پیش نہ کی گئی ہو، شہادتوںکاتجزیہ خودٹربیونل نے کیا ہو اور ایسے نتیجے پر پہنچا ہو جو حکومت کے خلاف ہو تو اس رپورٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی جو بھی حیثیت ہو اس سے قطع نظر اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار نہیں دیا جاسکتا اگر ایسا سمجھا گیا تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی ۔ایسی رپورٹوں کی باز گشت دہائیوں تک متعلقہ اشخاص کا پیچھا کرتی ہے جیسا کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کا ذکر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے بغیر ناکمل رہتا ہے اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر مختلف لوگوں یا اداروں کو ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔جوڈیشل انکوائری رپورٹ سے پولیس اپنی تفتیش میں راہنمائی حاصل کرسکتی ہے اور ٹربیونل میں پیش ہونے والی شہادتوں کی بنیاد پر اپنی تفتیش آگے بڑھا سکتی ہے تاہم ٹربیونل کی شہادتوں کو عدالتوں کے لئے قابل قبول بنانے کی خاطر تفتیشی افسر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ یہ شہادتیں خود بھی اکٹھی کرے اور پھر انہیں چالان کے ساتھ عدالت میں پیش کرے اگر کوئی تفتیشی افسر ٹربیونل کی شہادتوں پر کام نہیں کرتا اورٹربیونل کے اخذ کردہ نتائج کے بالکل برعکس چالان مرتب کردیتا ہے تواس کی تفتیش پر بدنیتی کا سوال اٹھایا جاسکتا ہے ۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی دوسری ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کے دوران پولیس کے لئے جوڈیشل انکوائری کے نکات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔پولیس کو انکوائری رپورٹ میں اٹھائے گئے نکات کے حوالے سے بھی ٹھوس شہادتیں اکٹھی کرنا پڑیں گی تاہم یہ ضروری نہیں کہ پولیس کی اکٹھی کردہ شہادتیں انکوائری رپورٹ کی تائید کرتی ہوں ۔

مزید :

تجزیہ -