بجٹ تجاویز پر پوری طرح عمل ہو گیا تو بے روزگاری کم ہو جائیگی
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
بجٹ کے اعدادو شمار ایسے ہیں جن کی زد میں آکر کوئی خوش ہوتا ہے اور کوئی ناراض، ہر کسی کے حصے میں بیک وقت نہ مسرت کے لمحات آسکتے ہیں اور نہ ہی غم گین کرنے والے، اب کی بار وہ لوگ مایوس ہوئے جو کئی روز سے یہ بے پر کی اڑا رہے تھے کہ بجٹ میں 51 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، اب معلوم نہیں ان کے پاس کوئی اطلاع تھی یا پھر حسب روایت وہ اخباری اصطلاح میں ’’پتنگ بازی‘‘ کررہے تھے۔
نئے ٹیکسوں کا ڈھنڈورا کچھ اس انداز سے پیٹا گیا تھا کہ بعض سیاست دان بھی اسے لے اڑے اور اپنے بیانات کو ان اعداد و شمار سے سجالیا حالانکہ اگر انہوں نے تھوڑی بہت کامن سنس کا مظاہرہ کیا ہوتا تو انہیں اندازہ ہوجاتا کہ اتنے ٹیکس نہیں لگائے جاسکتے لیکن یہ کامن سینس بھی اتنی عام نہیں بہرحال نئے ٹیکسوں کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی حکومت کا پانچواں بجٹ پیش کیا، یہ حکومت 5 جون 2013ء کو برسر اقتدار آئی تھی اور پہلے بجٹ کی تیاری کیلئے اسے زیادہ وقت نہیں ملا تھا۔ پھر بھی یہ کریڈٹ بہرحال اسحاق ڈار کو جاتا ہے کہ 2014ء میں جس ڈیفالٹ کی پیش گوئی کی جارہی تھی انہوں نے اپنی حکومت کو اس سے بچایا، آئین کی رو سے قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے اگرچہ وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت، کوئی وجہ بتائے بغیر صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور نئے انتخابات کراسکتے ہیں، اب بھی بعض سیاستدان تواتر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن اسی سال ہوں گے، باالفاظ دیگر قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے نئے انتخابات کرادیئے جائیں گے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور بظاہر ایسا ہونا یقینی بھی نہیں ہے تو موجودہ اسمبلی کی مدت 5 جون 2018ء کو پوری ہوگی، جب مدت پوری ہوجاتی ہے تو اسمبلی خود بخود ختم ہوجاتی ہے اسکے بعد نگران سیٹ اپ کے تحت دو ماہ کے اندر انتخابات ضروری ہوتے ہیں، اس لئے یہ امکان ہے کہ انتخابات اگلے برس جولائی یا اگست میں ہوں، 30 جون کو مالی سال (2017-18) ختم ہوگا، اس سے پہلے بجٹ بنانا اور منظور کرنا ضروری ہے، موجودہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے مئی کے مہینے میں نیا بجٹ بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھی اگلی حکومت قائم ہونے سے پہلے عبوری بجٹ کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرنا ہوگا، اسحاق ڈار نے تو اپنی طرف سے حکومت کا آخری بجٹ پیش کردیا ہے جس میں بے روزگاری ختم کرنے کیلئے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ تین گنا زیادہ کردیا گیا ہے ظاہر ہے جو بھی ترقیاتی منصوبے بنیں گے ان کی تکمیل کیلئے تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ ہر قسم کی لیبر کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس بجٹ کے ذریعے بیروزگاری کی شرح کم ہوگی۔
نئے سال کے بجٹ میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 6 فیصد رکھا گیا ہے، جو اگر حاصل ہوجائے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی اور اگلے برسوں میں اس شرح کو سات آٹھ فیصد تک لے جایا جاسکتا ہے، اور یہی شرح افزائش ہے جو بے روزگاری کے خاتمے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، موجودہ سال میں اگرچہ جی ڈی پی کا مقررہ ہدف تو حاصل نہیں ہوا جو 5.7 فیصد تھا لیکن تصویر کا روشن پہلو یہ ہے کہ دس سال میں پہلی مرتبہ یہ شرح 5 کے ہندسے کو عبور کرسکی ہے، گزشتہ دس سال میں یہ شرح کبھی اس سطح تک نہیں پہنچ سکی یہ اس لحاظ سے معمولی کامیابی نہیں ہے۔ اس عرصے میں موجودہ حزب اختلاف (پیپلز پارٹی) کی حکومت رہی جس نے دوسری مرتبہ پانچ سال پورے کئے، (اس سے پہلے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بھی پانچ سالہ مدت پوری کرچکی تھی) لیکن ان پانچ سالوں میں جی ڈی پی تین ساڑھے تین فیصد کے ارد گرد گھومتی رہی، ترقی کی موجودہ رفتار اگر اگلے دو تین برس قائم رہی تو بے روزگاری کم ہوگی، مہنگائی اور افراطِ زر میں بھی کمی آئیگی اور جو لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ لکیر کے اوپر آجائیں گے، بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جن سے بیروزگاری کم کرنے میں مدد ملے گی۔
حکومت بڑے عرصے سے اعلان کررہی ہے کہ 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم ہوجائیگی اور دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی سسٹم میں داخل ہوجائے گی لیکن مخالفین کو اس پر اعتبار نہیں حالانکہ حکومت کے اقدامات کہیں کہیں تو بہت ہی زیادہ نمایاں ہیں ابھی گزشتہ روز ساہیوال میں کول پاور پلانٹ کا افتتاح ہوا جس کے ایک یونٹ سے 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے، دوسرا یونٹ بھی اتنی ہی بجلی پیدا کرے گا، یہ پراجیکٹ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ڈی ایف آئی) کی ذیل میں آتا ہے کیونکہ اس کی ساری فنڈنگ چین کی حکومت نے کی ہے اور چین کے انجینئروں کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ 22 ماہ میں مکمل ہوا ہے۔ جو دنیا بھر میں ایک ریکارڈ ہے، اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ پہلی دفعہ پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے، زرعی شعبہ بھی بہتری کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے۔ رواں سال زرعی پیداوار میں 3.46 فیصد اضافہ حوصلہ افزاء ہے۔ سروسز سیکٹر کی ترقی کی رفتار بھی اچھی ہے عام طور پر اپوزیشن جماعتیں ہر حکومت کے بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ کہہ کر مسترد کردیتی ہیں یہ ’’اعزاز‘‘ موجودہ بجٹ کے حصے میں بھی آیا اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی اس معاملے میں ہم رائے نظر آئے کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے حالانکہ وزیر خزانہ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ 2019ء میں ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا، البتہ انہوں نے اسکے لئے ’’شرط‘‘ یہ رکھ دی ہے کہ اگر وہ اس وقت تک وزیر خزانہ رہے، درمیان میں چونکہ انتخابات کا دریا پڑتا ہے، اسلئے یہ یقین دہانی تو انہیں کوئی نہیں کراسکتا کہ اس وقت تک وہ وزیر خزانہ رہیں گے البتہ جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ء میں انہیں اپنی حکومت میں وزیر خزانہ بنا دیا تھا اگر کوئی دوسری حکومت آتی ہے تو وہ اسحاق ڈار کی خدمات مستعار لے سکتی ہے، لیکن ضروری نہیں مستقبل کا کوئی وزیراعظم ایسی روا داری کا مظاہرہ کرے، وہ شوکت عزیز جیسے کسی ٹیکنوکریٹ کو بیرون ملک سے طلب بھی کرسکتا ہے۔
بے روزگاری کا خاتمہ