ناراض اراکین قومی اسمبلی ، وزیر اعظم پر اعتماد ، وزراء سے شکایات

ناراض اراکین قومی اسمبلی ، وزیر اعظم پر اعتماد ، وزراء سے شکایات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:چودھری خادم حسین
یہ قطعی طور پر غیر متوقع نہیں کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کی طرف سے ناراض اراکین قومی اسمبلی سے رابطے کی ہدایت پر ان کی صاحبزادی مریم نواز نے شکایت کنندگان کے ایک گروپ سے ملاقات کرکے ان کی شکایات دور کرنے کا پختہ یقین دلایا ہے جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر اپوزیشن کو پاناما لیکس ٹی۔ او۔ آر کمیٹی میں واپس لانے کا بھی فیصلہ ہوا اور بعض سنجیدہ اور سینئر وزرا کو یہ کام سونپا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کو بنیادی شکایت وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ہے جبکہ دوسرے تین وزیر بھی نشانے پر ہیں۔ مریم نواز سے ملاقات کرنے والوں ہی نے اپنے پچاس سے زیادہ ساتھیوں سمیت بجٹ پر وزیر خزانہ کی اختتامی تقریر کا بائیکاٹ کر دیا تھا اگرچہ ووٹ بجٹ کے حق میں دیئے بائیکاٹ واضح ناراضی کا اظہار تھا جسے مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک تصور کیا جانے لگا اور ایسی خبریں بھی شائع ہو گئیں اور تبصرے بھی ہوئے چنانچہ وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کو یہ کہنا پڑا۔ اللہ کا نام اور مسلم لیگ میں کوئی فاروڈ بلاک نہیں اور نہ بن رہا ہے۔
معاصر میں شائع ہونے والی خبر سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ان اراکین کو ترقیاتی فنڈز اور وزرا کے رویوں سے شکایت ہے او ریہ شکایات دور بھی وزیراعظم ہی کر سکتے ہیں اس لئے وزیر اعظم کے خلاف ہو جانا قرین قیاس نہیں۔ اب تو نجف عباس سیال نے معاصر کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کی تردید بھی کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ شکایات دور کرنے کا پختہ یقین دلایا گیا ہے۔
دوسری اطلاع کے مطابق وزیر اعظم نے پھر سے اپوزیشن کے ساتھ رابطے کی ہدایت کی اور اغلباً یہ ذمہ داری اسحاق ڈار اور احسن اقبال کے سپرد کی جا رہی ہے۔ اس صورت میں جو نقشہ بنتا ہے اس میں ایک طرف وزرا سے شکایات ہیں اور دوسری طرف انہی پر اعتماد بھی کیا جا رہا ہے۔ بہر حال جہاں تک اپوزیشن کا سوال ہے تو سب جماعتوں نے اپنا اپنا موقف اپنا لیا اور سب کی حکمت عملی بھی اپنی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اصولی فاصلوں کے باوجود قریب آ رہی ہیں اور اب تو تین جماعتیں تحریک انصاف۔ پیپلزپارٹی اور پاکستان عوامی تحریک ایک ہی منزل کی مسافر ہیں اور الگ الگ طور پر وزیر اعظم اور ان کے رشتہ داروں کی نا اہلیت کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کر رہی ہیں۔ حزب اقتدار اور سرکار سے تعلق رکھنے والے ماہرین قانون یہ تسلی دے رہے ہیں کہ ان ریفرنسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اسحاق ڈار نے تو پیپلزپارٹی کو خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کی کہ اس سے الٹا اس کو نقصان ہوگا۔ مطلب یہ کہ آرٹیکل 63-62 کی زد میں ان کے زیادہ لوگ آئیں گے(یہ دونوں آرٹیکل 8 ویں ترمیم کے تحت داخل کئے گئے اور تب بھی یہی کہا گیا کہ یہ پیپلزپارٹی کے لئے پھندا ہے) بہر حال پریشر پالیٹکس جاری ہے اور اسی دوران بد امنی میں بھی اضافہ تشویش کا باعث بن رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الیکشن کمیشن کے چار اراکین کی نامزدگی کے سلسلے میں رابطے جاری ہیں، اسحاق ڈار نے قائد حزب اختلاف اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ سید خورشید شاہ کو نام موصول ہو گئے ہیں۔ ان کا جواب یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں سے مشاورت کے بعد نام تجویز کریں گے اور اس کے بعد ہی پارلیمانی کمیٹی میں ان پر غور ہوگا اس عرصہ میں مسلم لیگ (ق) کے مرکزی راہنما قومی اسمبلی کے رکن سابق نائب وزیراعظم اور صوبائی وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے پہلے ہی عدم اعتماد کا اظہار کر دیا الزام لگایا کہ حکومت اپنے من پسند افراد نامزد کر کے الیکشن دھاندلی کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ بہر حال چودھری پرویز الٰہی سے رابطہ اب سید خورشید شاہ کی ذمہ داری ہے، نامزدگی ابھی سے شکوک کی زد میں آ گئی ہے۔

مزید :

تجزیہ -