18ویں آئینی ترمیم نہ ہوتی تو مشرف آج نااہل ہوتے
سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف وطن واپسی کے بعد نہ صرف خود الیکشن میں حصہ لینے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں بلکہ اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کو بھی متحرک اور منظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی سی او کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے 2009ءمیں قرار دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3نومبر 2007ءکو عبوری آئینی فرمان جاری کرکے آئین کو سبوتاژ کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد کیا جنرل (ر) پرویز مشرف الیکشن لڑنے کے اہل ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کے لئے عدلیہ کے ایک نئے فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ عدالت عظمیٰ پرویز مشرف کو آئین توڑنے کا مرتکب قرار دے چکی ہے مگر حکومت نے ان کے خالف کوئی مقدمہ قائم کیا اور نہ ہی انہیں آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کے الزام میں کسی عدالت سے سزا ہوئی۔ آئین کے آرٹیکل 6میں آئین کو طاقت کے زور پر توڑنے، معطل کرنے یا اس کی کوشش کرنے کو سنگین غداری قرار دیا گیا ہے۔ اس کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کے لئے 1973ءمیں ایک قانون بنایا گیا جس میں مجرم کے لئے عمر قیر یا موت کی سزائیں مقرر ہیں، اور اس قانون کا اطلاق 1956ءسے ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت عام شہری کو مقدمہ درج کروانے کا اختیار ہے اور نہ ہی عدالتیں ملزم کے خلاف کارروائی کرسکتی ہیں جب تک کہ وفاقی حکومت ملزم کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم نہ کرے۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں یہ اختیار ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو دیا جاچکا ہے۔ لیکن عدالتی فیصلے کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کے معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی۔
ارکان اسمبلی کی اہلیت اور نااہلیت سے متعلق آئین کے آرٹیکلز 62اور 63کے میں شامل ذیلی آرٹیکلز کے تحت تو بظاہر پرویز مشرف نااہلی کی ذیل میں نہیں آتے۔ آرٹیکل (1)63جی میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اب کام کررہا ہے جو عدلیہ کی آزادی کے لئے نقصان دہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل ہوگا۔ جنرل پرویز مشرف نے 3نومبر 2007ءمیں پی سی او جاری کرکے آرٹیکل 6کے تحت نہ صرف جرم کا ارتکاب کیا بلکہ آرٹیکل (1)63جی کے تحت نااہلی کی شرط کی زد میں بھی آگئے۔ وہ نااہل ہوجاتے اگر 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل (1)63 جی کو تبدیل نہ کردیا جاتا۔ 18ویں ترمیم سے قبل اس جرم کے تحت عدالت سے سزا یافتہ ہونا ضروری نہیں تھا۔ اب 18ویں ترمیم کے ذریعے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ عدلیہ کی تضحیک یا عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانے کے ارتکاب پر کوئی شخص اُسی وقت نااہل ہوگا جب اسے کوئی عدالت اس جرم میں سزا سنا چکی ہو۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اس حوالے سے کوئی مقدمہ چلا ہے اور نہ ہی انہیں سزا ہوئی ہے۔ سردست تو ایسا لگت ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اب اس معاملہ کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عدالت از خود ان کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی نہیں کرسکتی۔ لیکن آرٹیکل 204کے تحت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار عدلیہ کے پاس موجود ہے۔ اگر انہیں 3نومبر 2007ءکے اقدام پر توہین عدالت کے تحت سزا ہوجاتی تو وہ آرٹیکل (1)63جی کے تحت خود بخود نااہل ہوجائیں گے۔ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے از خود نوٹس بھی لے سکتی ہے اور کوئی شہری پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے لئے توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کرسکتا ہے۔ اب عدالت اس حوالے سے کیا کارروائی کرتی ہے اس کا جواب ہی پرویز مشرف کا سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔