اقتصادی راہداری کی آڑ، پنجاب سے تعصب کیوں؟
تجزیہ: چودھری خادم حسین
کسی بڑے کام کے لئے زیادہ محنت اور توجہ تو اچھی بات ہے تاہم سب کو اعتماد میں لینا اور بھی بہتر ہے اور اقتصادی راہداری پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس اسی نیت کی مظہر ہے، اس پر کوئی رائے دینے کی ضرورت نہیں کہ خود سیاسی رہنما ہی سب کچھ بتاتے پھر رہے ہیں۔ ہمیں تو صرف یہ کہنا ہے کہ یہاں جو صورت حال ہے اسے پنجاب دشمنی ہی سے موسوم کیا جائے گا اور کیا یہ صوبائی تعصب کا منصوبہ ہے۔ ابھی تک اقتصادی راہداری روٹ کے جو تین مراحل سامنے آئے ہیں ان میں پہلے دو مراحل کے مطابق تعمیر سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہی زیادہ مستفید ہوں گے اور سندھ کا کچھ حصہ اس راستے میں آئے گا۔ ملتان اور لاہور کو جو راستہ یا سہولت ملنا ہے وہ تیسرے مرحلے میں موٹروے کے ذریعے ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب موٹروے کراچی سے لاہور تک مکمل ہو جائے گی۔دوسرے معنوں میں سندھ اور پھر بلوچستان یہاں بھی پہلے مستفید ہوں گے۔ پنجاب کی باری تو بالکل آخیر میں آئے گی اور پھر یہ کوئی جرم تو نہیں کہ گوادر اور کاشغر روٹ سے پورا ملک فائدہ اٹھائے کیا چین کی تجارت صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہی سے ہوگی؟ محترم سیاسی راہنماؤں کو خیال ہونا چاہیے کہ ان کے اقدامات سے فائدہ کی بجائے نقصان نہ ہو اور پھر یہ اور تو کسی نے نہیں چین نے خبردار کیا کہ بھارت کی طرف سے شرارت کا سلسلہ شروع ہے۔ کیا آپ یہ الزام لینا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں عمران خان کو زیادہ غور کرنا ہوگا کہ وہ وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔عمران خان تو جوڈیشل کمیشن کے تازہ حکمنامے سے اتنے خوش ہو گئے کہ نوشہرہ اور مردان کے جلسوں میں ان سے یہ خوشی سنبھالی نہیں جا رہی تھی اور انہوں نے اعلان بھی کر دیا 2015ء الیکشن کا سال ہے (2016ء سے پلٹے ہیں) اور حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔ ماشاء اللہ وہ حکم کی تشریح کے بغیر ہی سب کچھ کہہ رہے ہیں جیسے جوڈیشل کمیشن ان کی منشاء کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔پہلے فارم 15کی اصلیت جان لیں یہ فارم بیلٹ پیپروں کی آمد، ووٹروں میں تقسیم اور بچ جانے والے بیلٹ پیپروں کی تعداد کے لئے ہوتا ہے اور اس میں یہی سبھی اندراج ہوتا ہے، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے بیانات آ چکے کہ فاضل بیلٹ پیپر چھپے اور ایسا ہر الیکشن پر ہوتا ہے کہ کم نہ پڑ جائیں۔اب اگر یہ تفصیل سامنے آئے گی تو یہ فارم یہ تو ظاہر نہیں کریں گے کہ عمران خان کے ووٹ نوازشریف کو دے دیئے گئے ہیں۔
یوں بھی تحریک انصاف کو منظم دھاندلی ثابت کرنا ہے جو اس سازش کے تحت ہوئی کہ نوازشریف کو برسراقتدار لایا جائے۔ عمران خان کی خوشی تسلیم کر لی جائے تو پھر کئی آئینی سقم پیدا ہوں گے اور جوڈیشل کمیشن کو ان کے فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔ اگر عمران خان کے مطابق انتخابات غلط اور دھاندلی والے ہیں اور ان کے تحت حکومت اور اسمبلیاں غلط ہیں تو پھر بطور اکثریتی جماعت حکومت بنانے سے لے کر اب تک اسمبلیوں کی تمام کارروائی، حکومت کے تمام اقدامات، چیف جسٹس سے چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر تقرر بھی غیر آئینی اور حکومت کی طرف سے کئے جانے والے معاہدے بھی غیر آئینی ہو جائیں گے۔ ان کا تحفظ کون کرے گا؟ صرف نئے انتخابات کا ہونا یا کرانا ہی تو کوئی مقصد نہیں ہے۔ اس لئے بات کرنے سے قبل غور کی عادت بہتر ہوتی ہے۔