طویل عرصے بعد ڈان لیکس کی رپورٹ کے بعد کنفیوژن کچھ اور بڑھ گیا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ڈان لیکس کی رپورٹ تو وزیراعظم کو پیش کر دی گئی ہے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول انہوں نے پیش کی جانے والی سفارشات کے پیرا 18 کی روشنی میں احکامات بھی دے دئے ہیں، جن کے مطابق وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پرنسپل انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) راؤ تحسین کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل المیڈا کا معاملہ اخباری پبلشروں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ خبر کی اشاعت کے بعد جب سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا تھا تو بھی اس معاملے کو اے پی این ایس کے مطالبے پر حل کیا گیا تھا اور وہ کچھ عرصے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے۔ اس سلسلے میں اس وقت کے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کو بھی ہٹایا جاچکا ہے۔
وزیراعظم کو جو رپورٹ وزیر داخلہ کی وساطت سے پیش کی گئی ہے، اس کی تفصیلات کا تو علم نہیں اور شاید اب تک ان باخبر اینکروں کو بھی نہیں جو اڑتی چڑیا کے پر گننے اور وہ اتنے باخبر سمجھے جاتے ہیں کہ بات اس طرح کرتے ہیں جیسے جہاں کہیں بھی دو آدمی گفتگو کر رہے ہوں تو تیسرے وہ ہوتے ہیں۔ چند روز پہلے عمران خان نے کہا کہ قومی اسمبلی کے رکن اور وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے ان کے پاس ایک دوست کو بھیجا اور اس کے ذریعے پیغام دیا کہ وہ اگر پاناما کے معاملے کو بھول جائیں تو انہیں دس ارب روپے دئے جائیں گے۔ عمران خان نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور کہا کہ شریف برادران یہ معاملہ اگر عدالت میں لے جائیں گے تو وہ عدالت میں پیغام رساں کا نام ظاہر کر دیں گے، لیکن بہت سے اینکر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں بھی پیغام رساں کا علم ہے بلکہ ایک دعویٰ تو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ واقعے کے عینی شاہد ہیں اور یہ گفتگو (دس ارب کی پیشکش) ان کے سامنے ہوئی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنے سارے باخبروں کی موجودگی کے باوجود ابھی تک نام سامنے نہیں آرہا، اس نام سے عوام الناس کو دلچسپی ہوسکتی ہے، جنہوں نے بھیجا تھا، انہیں تو علم ہے ہی ان کے علم میں تو عمران خان یا کوئی دوسرا کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ دراصل اس وقت تو بات ڈان لیکس کی ہو رہی ہے۔ پانامہ لیکس کی نہیں جس پر فیصلہ آچکا۔ عمران خان نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ڈان لیکس کی پوری رپورٹ شائع کی جائے۔ اب ان کا یہ مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں، لیکن اس وقت تک صورت حال تو یہی ہے کہ متعلقہ حضرات کے سوا کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس رپورٹ میں کیا لکھا ہے، جہاں تک طارق فاطمی اور راؤ تحسین کے خلاف ایکشن کی اطلاعات کا تعلق ہے۔ یہ باتیں تو عرصے سے اخبارات میں چھپ رہی تھیں اور کوئی راز نہیں رہ گئی تھیں، اب تو صرف اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ ان کے خلاف ایکشن لے لیا گیا ہے۔ باقی اس معاملے کی تفصیلات سے اب تک تمام حضرات بے خبر ہیں اور سلیم احمد کے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے
کوئی نہیں جو پتہ دے دلوں کی حالت کا
سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
اب چونکہ رپورٹ کے متعلق تو آگاہی نہیں، اس لئے یار لوگوں کا فوکس اس ٹویٹ پر ہے جو آئی ایس پی آر نے جاری کیا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن نامکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ چونکہ تبصرہ نگاروں میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ انکوائری بورڈ کی اصل سفارشات ہیں کیا، اس لئے کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ کس حد تک عملدرآمد کیا گیا ہے جس پیرا 18 کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ بھی سامنے نہیں ہے۔ اس لئے یا تو سرکاری اعلان پر انحصار کیا جاسکتا ہے یا آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے، قیاس کے زمرے میں ہی آتا ہے یا پھر حکومت مخالف اینکر اس پر اپنی خواہشات کا حاشیہ چڑھا رہے ہیں۔
اس وقت ایک واقعہ یاد آرہا ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں میاں ممتاز دولتانہ برطانیہ میں پاکستان کے سفیر تھے، پاکستان ٹائمز والے خالد حسن پریس اتاشی تھے، انہیں میاں دولتانہ نے بلایا اور حکم دیا کہ حکومت پاکستان کو ایک خبر کے بارے میں تشویش ہے جس کے بارے میں خدشہ تھا کہ اگلے دن کے اخبارات میں چھپ جائے گی۔ میاں دولتانہ نے خالد حسن سے کہا کہ وہ یہ خبر رکوا دیں، خالد حسن صحافی تھے اور برطانوی پریس کی آزادی کے بارے میں مکمل ادراک رکھتے تھے، انہوں نے میاں دولتانہ سے ازراہ تفنن کہا میاں صاحب وضو کریں، مصلا بچھائیں اور دعا مانگیں کہ یہ خبر برطانوی پریس خصوصاً ٹیبلائیڈ اخبارات کو معلوم نہ ہو، اگر خبر ان کے ہتھے چڑھ گئی تو خالد حسن بے چارا اس پوزیشن میں نہیں کہ یہ خبر رکوا سکے۔ ڈان میں جو خبر شائع ہوئی اس کے بارے میں اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ ایڈیٹر نے یہ خبر اپنے ذرائع سے بھی چیک کر لی تھی اور یہ اطمینان کرلیا تھا کہ جس انداز میں یہ خبر رپورٹ کی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں عام طور پر اخبارات میں جو کچھ چھپ رہا ہوتا ہے، اس کے بارے میں محکمہ اطلاعات زیادہ باخبر نہیں ہوتا، اور اگر کوئی سنسنی خیز خبر چھپنے جا رہی ہو جیسی کہ زیر بحث خبر تھی، تو اخبار نے اس بات کا اہتمام تو کیا ہوگا کہ اشاعت سے قبل اس کی بھنک کسی کو خصوصاً سرکاری حلقوں کو نہ پڑے۔ ویسے تو معاملے کی تحقیق کرنے والے بورڈ کے روبرو ایڈیٹر اور رپورٹر دونوں نے اپنا موقف پیش کر دیا تھا، اس موقف کو کس حد تک پذیرائی بخشی گئی اور کس حد تک نہیں، یہ تو اسی وقت معلوم ہوگا جب ڈان لیکس کی رپورٹ اگر کلی نہیں تو جزوی طور پر سامنے آئے گی۔
رپورٹ کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ، نئے مطالبے سامنے آرہے ہیں، سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ جس شخص نے لیک کی، اس کا نام منظر عام پر لایا جائے، جب تک رپورٹ کے متعلقہ حصے سامنے نہ ہوں، کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی ہے۔صرف اتنا یقینی ہے کہ رپورٹ کے بعد کنفیوژن مزید بڑھ گیا ہے۔