ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 27
سلیمان عالیشان کی عظمت
سلطان سلیمان عثمانی سلطنت کا دسواں سلطان اور اپنے باپ سلیم کے بعد عالم اسلام کادوسرا خلیفہ تھا۔اس کے دور میں عثمانی خلافت اپنے اس عروج پر جاپہنچی تھی جو اس کے بعد کبھی ممکن نہ ہو سکا۔ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے اسے عروج پانے کے سارے مواقع عطا کر دیے تھے ۔ وہ 1520میں اپنے باپ سلیم کی وفات کی بعد صرف 24سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ دیگر ترک سلاطین کی بہ نسبت اسے اقتدار کے لیے اپنے بھائیوں سے کوئی رسہ کشی نہیں کرنا پڑ ی کہ وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔اس کا باپ خود ایک زبردست سلطان تھا جس نے عثمانی سلطنت کو آٹھ برسوں کے مختصر دور حکومت میں ایک عظیم عالمی قوت اور خلافت میں بدل دیا تھا۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 26
سلطا ن سلیم دور سے قبل سلطنت بس موجودہ ترکی اور بلقان تک محدود تھی، مگر اس نے مصر، شام ، فلسطین اور موجودہ سعوی عرب کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ سلطنت کی توسیع کی اسی پالیسی کو سلیمان نے جاری رکھا۔ قدرت نے اس مقصد کے لیے اسے طویل وقت دیا اور وہ 46برس یعنی تقریباً نصف صدی حکمران رہا۔اس کے پاس بہترین فوج ، قابل سپہ سالار اور وفادار اور باصلاحیت وزیر اور مشیر رہے ۔ اس کے دور میں سلطنت کا رقبہ دوگنا ہو گیا اور صرف ایران کو چھوڑ کر پور ے مشرق وسطیٰ، آسٹریا تک نصف یورپ، شمالی افریقہ اور سمندر کی سمت میں پورے بحیرہ روم پر اس کا اقتدار قائم ہو گیا۔ اس کی سلطنت کا رقبہ ڈیڑ ھ کروڑ مربع کلومیٹر تک جاپہنچا۔ دنیا کے مرکز میں موجود تین براعظموں پر مشتمل سلطنت کی حکمرانی، انسانی تاریخ کی وہ عظمت تھی جو سلطان سلیمان سے پہلے کسی کو حاصل ہوئی نہ بعد میں ہو سکی۔
سلیمان نے فتوحات ہی نہیں کیں بلکہ ایک بہترین نظام حکومت بھی متعارف کرایا۔ اس کی وجہ سے اسے سلیمان قانونی(قانون ساز) بھی کہا جاتا ہے ۔وہ ذاتی طور پر ایک جرنل ہونے کے ساتھ جس نے حکومت کے دس برس میدان جنگ میں گزارے ، ایک شاعر اور نگینے تراشنے کے ہنر میں بھی یکتا تھا۔ وہ علم و ادب کا دلدادہ تھا اور اس کے دور میں کلچر، آرٹ اور علم و فن کو بھی بھرپور سرپرستی ملی۔ کچھ اور نہیں یہی سلیمانیہ مسجد جو کہ اس دور کے مشہور ماہر تعمیرات سنان کی بنائی ہوئی ہے ، اس کے اعلیٰ ذوق کا تعارف کراتی ہے ۔ غرض سلیمان جس کو سلیمان عالیشان کا خطاب دیا گیا ، عثمانی خلافت یا مسلمانوں کی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا ایک انتہائی کامیاب اور طاقتور حکمران تھا جس نے معاشی، فوجی ، سیاسی اور تہذیبی لحاظ سے عثمانی سلطنت کو اپنے بام عروج پرپہنچادیا۔
اداسی ، موت اور غفلت
سلیمان کا مقبرہ مسجد سے متصل ایک احاطے میں بنا ہوا تھا۔ یہ ایک چھوٹا قبرستان تھا جس میں دیگر عمائدین سلطنت کے ساتھ اس کی بیوی حورم سلطان کا مقبرہ بھی تھا۔دونوں مقبرے ہشت پہلو یا آٹھ کونوں والے تھے ۔ سلیمان کے ساتھ اس کی چہیتی بیٹی ماہ نور سلطان بھی دفن تھی۔
عظمت کے اس تذکرے کے ساتھ جو اوپر بیا ن ہواہم اپنی آنکھوں کے سامنے اس قبرستان میں عبرت کا عجیب نمونہ دیکھ رہے تھے ۔کچھ دیر پہلے مسجد کے ماحول میں جس روحانیت نے ہمارا احاطہ کر لیا تھا ان قبروں کے سامنے وہ روحانیت گہری افسردگی میں ڈھل چکی تھی۔
قبرکا گڑ ھا ہر عظمت کا آخری انجام ہے ۔ مگر نجانے انسان کس مٹی کا بنا ہوا ہے ۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے انسانی عظمت کی رفعتوں کو تہہ خاک دفن ہوتا دیکھتا ہے ، مگر خود ایسے جیتا ہے جیسے اسے نہیں مرنا۔وہ بولتا ہے اور بولتا چلا جاتا ہے ۔ وہ کماتا ہے اور کماتا چلا جاتا ہے ۔ وہ ظلم کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے ۔وہ دوسروں کی جان، مال، آبرو کو نقصان پہنچاتا اور دوسروں کا حق تلف کرتا اور کرتا چلا جاتا ہے ۔
اور ، اور بس اور کی ہوس انسان کو اندھا کیے رکھتی ہے ۔یہاں تک کہ زندگی کی سواری اسے موت کی منزل پر لاڈالتی ہے ۔اس وقت انسان جان لیتا ہے کہ دنیا کچھ بھی نہیں تھی۔ ہرگزکچھ بھی نہیں تھی۔موت کے بعد انسان جب آخرت کی حقیقتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا توپکار اٹھے گا کہ کاش مجھے دوبارہ دنیا کا ایک پل بھی مل جائے تو میں اس ابدی بادشاہی کو پالوں جس کے سامنے سلیمان عالیشان کی بادشاہی بھی کوئی چیز نہیں ۔
مگرآج یہ انسان کسی صورت اِس دنیا کے پار اُس دنیا کودیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ نجانے یہ انسان جو دنیا کی ہر چیز محسوس کرسکتا ہے ، آخرت کی زندگی کو محسوس کرنے میں اس قدر عاجز کیوں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کا ڈی این اے مرنے کے لیے نہیں بنایا گیا۔اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ موت کی حقیقت کو دیکھ سکے ۔
سلیمان اور حورم کے مقبروں کے سامنے کھڑ ے ہوکرہم دونوں میاں بیوی اداسی اور افسردگی کے گہرے احساس میں ڈوب چکے تھے ۔اس اداسی نے ترکی سے رخصت ہونے تک میرا پیچھا نہیں چھوڑ ا۔
ہر عروج رازوال است
سلیمان کے ساتھ حورم کا تذکرہ بار بار ہورہا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا بھی کچھ تعارف کرایا جائے ۔حورم سلطان کا، میرے نزدیک، بہترین تعارف یہ ہے کہ یہ بہترین ذوق لطیف کے حامل سلطان عالیشان کی وہ محبت تھی جس نے بالواسطہ طور پر عثمانی خلافت کو اس کے عین عالم عروج میں زوال کے راستے پر ڈال دیا۔
حورم کا تعلق یوکرین سے تھا۔ا س کا اصلی نام ریکسلانہ بیان کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک کنیز کے طور پر محل میں لائی گئی اور سلیمان کی تخت نشینی کے بعد اس کے دل کو بھا گئی۔اُ س دور میں دستور یہ تھا کہ دنیا بھر سے حسین اور باصلاحیت کنیزیں خرید کر محلات میں لائی جاتی تھیں ۔ان میں سے چند ہی کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ کی منظورِ نظر بن سکیں ۔ حورم سے پہلے دو کنیزیں گلفام اور ماہ دوراں اسی حیثیت میں موجود تھیں ۔ ان میں سے ماہ دوراں سلطان کے پہلے بیٹے مصطفی کی ماں بھی بن چکی تھی ۔مصطفیٰ اپنی خاندانی روایات کے عین مطابق انتہائی قابل اور بہادر شہزادہ اور جانشین سلطنت بھی تھا۔مگرآنے والے برسوں میں حورم نے اس کی موت کا انتظام کرواکے عثمانی سلطنت کو ایک بہترین حکمران سے محروم کر دیا۔ حورم نے رفتہ رفتہ سلطان کو اپنا گرویدہ بنالیا اور تمام شاہی روایات کے خلاف سلطان نے نہ صرف حورم سے باقاعدہ شادی کر لی بلکہ اسے ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت بھی دے دی۔
حورم کاسلطان پر اثر ورسوخ بڑ ھنا شروع ہوا۔ اس نے اپنی اور سلطان کی محبوب بیٹی ماہ نور سلطان کو ایک درباری رستم پاشا سے جو عمر میں اس سے 22برس بڑ ا تھا بیاہ دیا۔یہ دراصل شاہی دربار میں اس کے اثر ورسوخ بڑ ھانے کا ایک راستہ تھا۔ جس کے بعد اس نے سلیمان کے سب سے قریبی مشیر اور وزیر اعظم ابراہیم پاشا کو نشانہ بنایا جو کہ شہزادہ مصطفیٰ کازبردست حامی تھا ۔ اس نے بتدریج ابراہیم پاشا کے تعلقات بادشاہ سے خراب کروائے اور آخر کار ابراہیم اپنی کچھ غلطیوں کی وجہ سے بادشاہ کے ہاتھ قتل ہو گیا۔حورم نے رستم کو وزیر اعظم بنوادیا۔جس کے بعد حورم اور رستم پاشا نے رفتہ رفتہ بادشاہ کو شہزادہ مصطفیٰ کے خلاف کر دیا اور آخر کار بادشاہ نے شہزادہ مصطفی کو بھی قتل کرادیا۔
اب حورم کا راستہ بالکل صاف تھا۔ ایک طرف دربار میں اس کا اثر رسوخ بہت بڑ ھ گیا اور دوسری طرف اس کی اپنی اولاد کا تخت کا وارث بننا یقینی ہو گیا۔ مگر وہ شہزادہ مصطفی کے قتل کے چند سال بعد سلیمان کی زندگی ہی میں وفات پا گئی۔مصطفی کے بعد حورم اور سلیمان کے دوبیٹے بایزید اور سلیم رہ گئے تھے ۔ ان میں سے بایزید بھی قابل تھا۔ مگر بادشاہ کا رجحان سلیم کی طرف تھا جو کہ بالکل عیاش مگر بادشاہ کے لیے ایک یس مین تھا۔ چنانچہ بایزید نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی بادشاہ کے ہاتھوں مارا گیا۔ سلطنت کے دو بہترین شہزادوں کے قتل کے بعد جب سلیمان کا انتقال ہوا تو عثمانی خلافت اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک انتہائی نا اہل شخص یعنی شہزادہ سلیم کے ہاتھ آئی۔کہا جاتا ہے اسے حسین کنیزوں کے ساتھ داد عیش دینے اورشراب پینے کے سوا کسی چیز میں دلچسپی نہ تھی ۔ اس کا عہد سلطنت عثمانیہ کے دور زوال کا آغاز تھا۔ گرچہ یہ سلطنت اتنی عظیم تھی کہ اس زوال کو نمایاں ہوتے ہوئے صدی دوصدی کا عرصہ لگ گیا۔ہم تک جو تاریخی واقعات منتقل ہوئے ہیں ، اگر ان کی صحت درست ہے تو اس زوال میں حورم سلطان کا بنیادی ہاتھ تھا۔
جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔