ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ۔۔ قسط نمبر 1
رات کا وقت تھا اور میں مشہورِعالم استقلال ایونیو پر کھڑ ا تھاجو استنبول کی پہچان تھی۔ میرے سامنے ہزا رہا لوگ چلے جا رہے تھے ۔ ہنستے بولتے ، گاتے مسکراتے لوگ۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، خوش گپیاں کرتے ۔ ۔ ۔ اردگرد موجود کھانے پینے اور انواع و اقسام کی اشیائے ضرورت اور اشیائے تعیش کو دیکھتے ، خریدتے ، برتتے لوگ۔یہ لوگ خوشیوں کی تلاش میں اپنے وطن سے دور آئے ہوئے تھے ۔ایک ایسے شہر میں جوعظیم حکومتوں اور عالی شان تہذیبوں کا مرکزرہا تھا۔ جو مشرق و مغرب کا خوبصورت امتزاج تھا۔ جو قدیم آثار اور جدید سہولیات کا انمول سنگم تھا۔جو قدیم تاریخ اور جدید تہذیب کے ملاپ کا نادر نمونہ تھا۔
ترکی میں اپنے قیام کے دوران میں یہ منظر میں نے بارہا دیکھا۔ دن میں بھی اور رات میں بھی۔ صبح میں بھی شام میں بھی۔ سورج کی کرنوں میں اور بادلوں سے برستی تیز بوندوں میں بھی ۔ یہی رونق، یہی چہل پہل اس سڑ ک کی پہچان تھی۔یہاں کوئی ٹریفک نہ ہوتا تھا۔بس دور تک پھیلے انسانی سر ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مرد وزن اور لبِسڑ ک انھیں بلاتی، لبھاتی سجی سجائی دکانیں اس کی پہچان تھیں ۔یہ سڑ ک آج کے انسان کی کہانی تھی۔ اپنے آغاز سے بے خبر، اپنے انجام سے بے خبر انسان۔ اپنے خالق سے بے خبر اپنے مالک سے بے خبر انسان۔خوشیوں کی تلاش اور خواہشوں میں سرگرداں انسان۔انھی خوشیوں کے ابدی حصول کی خواہش میں یہ انسان روزِازل حوصلے کی دوڑ میں ساری مخلوق سے آگے نکل گیا اور بارِ امانت اٹھابیٹھا۔ ۔ ۔ وہ انسان کتنا ظالم اور کتنا جاہل ہے اسے جاننے کے لیے استقلال ایونیو شاید اس دنیا کی بہترین جگہ تھی۔
یہاں ہر نسل اور ہر قوم کے لوگ موجود تھے ۔ سیاہ فام افریقیوں سے زردفام چینیوں تک۔ دنیا کے اقتدار پر براجمان اہل مغرب سے لے کر ان کی جگہ لینے کی کوشش کرتے اہل مشرق تک۔ قرآن مجید سے بے خبر غیر مسلموں سے لے کر قرآن مجید کو مانتے ، چومتے اور اسے بھاری بوجھ سمجھ کر کونے میں رکھ دینے والے مسلمانوں تک سب یہا ں موجود تھے ۔
میں اسی سڑ ک پر موجود تھا۔ جاہلوں اور بے خبروں کی اس بھیڑ میں ظالموں اور مجرموں کے ایک نمائندے کے طور پر میں سر جھکائے کھڑ ا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ ان بے خبروں میں سے ہر شخص جب روزِقیامت پروردگار عالم کے حضور پیش ہو گا تو اس کے ساتھ جو ہوسوہو، وہ حاملین قرآن کے متعلق یہ گواہی ضرور دے گا کہ انھوں نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔ میں اس سڑ ک پرکھڑ ا یہ سوچ رہا تھا کہ انسانیت پر شہادت حق دینا جن کا کام ہے وہ اپنا کام نہیں کرتے تونہ کریں ، انسانیت ان کے خلاف اپنی شہادت ضروردے گی کہ انھوں نے حق کی گواہی نہیں دی تھی۔ان جاہلوں کے ساتھ روز قیامت جو بھی ہو، شہادت حق نہ دینے والے ظالموں پر ذلت آج طاری کر دی گئی ہے ۔ اس ذلت کا ایک زندہ نمونہ یہ شہر استنبول تھا جہاں ایک دور میں مسلم سلاطین دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کرتے تھے ۔اور آج حال یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر انسانی اور معدنی وسائل کے حامل ہونے کے باجودمسلمانوں پر سے ذلت، مغلوبیت، افلاس اور بے امنی کی سیاہ رات ختم نہیں ہوکر د ے رہی۔ شاید پروردگار عالم نے اِس فقیر کو اِسی سوال کا جواب ڈھونڈنے اس سفر پر بھیجا تھاکہ مسلمانوں پرمسلط ذلت و رسوائی کی یہ سیاہ رات کب ختم ہو گی۔
ایک نئے سفر کی تمہید
ایک ایسے شہر کا سفرجو ڈیڑ ھ ہزار برس سے زیادہ مدت تک دنیا کا مرکز اور ان عظیم سلطنتوں کا دارالخلافہ رہا ہو جن کا اقتدار تین براعظموں تک پھیلا تھا، میرے جیسے شخص کے لیے اپنی ذات میں ایک بہت پرکشش خیال تھا۔اورگرچہ سفر کے بعد میری یہ رائے بنی کہ یہ ابھی تک میری زندگی کا سب سے اچھا سفر تھا اوریہ کہ استنبول کئی اعتبار سے دنیا کی کسی بھی ٹورسٹ اٹریکشن سے بہتر منزل ہے ، تاہم ان سب کے باوجودروانگی سے قبل میرے اندریہاں جانے کی معمولی خواہش بھی پیدا نہ ہوئی۔ میں کوشش کے باجود اس سفرپر جانے کے لیے نہ خود کو آمادہ کرسکا نہ ذہن میں کوئی تجسس بیدار ہوا۔
مجھے اس سفر پر آمادہ کرنے کا سہرا میری اہلیہ کے سرتھا۔مجھے آسٹریلیا کا ایک دعوتی سفر درپیش تھا۔ اس دوران میں اہلیہ کا اپنی بہن اوربہنوئی کے ہمراہ ترکی جانے کا پروگرام تھا۔ مجھے آسٹریلیا کا ویزہ بہت تاخیر سے ملا، اس لیے وہاں کا پروگرام موخرہو گیا۔ جس کے بعد اہلیہ کا مستقل تقاضہ تھا کہ میں ان کے ساتھ جاؤں ۔ میرے پاس نہ اخراجات سفرتھے نہ وسائل، مگر پھر اللہ نے انتظام کرادیا تومیں آمادہ سفر ہوا۔ پھر بھی بعض مسائل اور مصروفیات کی بنا پر ذہن اس سفر کے لیے آمادہ نہ تھا۔ نہ دل میں وہ مسافرانہ امنگ پیدا ہوئی جو ایسے سفر کا خاصہ ہوتی ہے ۔
مزید یہ ہوا کہ جب ہم نے ویزہ کے لیے اپلائی کیا تو مقررہ وقت پر پاسپورٹ نہ آ سکا۔ سالی اور ہم زلف جن کا ویزہ پہلے سے لگا ہوا تھا انتظار کرتے کرتے روانہ ہوگئے ۔ رمضان بالکل سر پر آ چکے تھے اور بمشکل دس بارہ دن ہی بچے تھے اس لیے اب محسوس ہوا کہ سفر ممکن نہیں رہے گا۔ مگر آخری وقت پر سفارتخانے سے فون آیا کہ ویزہ لگ کر ہمارا پاسپورٹ آ گیا ہے ۔ یوں جمعرات کی دوپہر پاسپورٹ ملے اور اسی رات کی سیٹیں ترکش ایئرلائن سے مل گئیں ۔ اور ہم انتہائی مختصر نوٹس پربغیر کسی تیاری کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔
ائیرپورٹ اور سفر آخرت اور دنیا کے سفر کی آسانی
ائیر پورٹ میرے لیے ہمیشہ سے آخرت کی یاددہانی کا بڑ ا ذریعہ رہا ہے ۔ ائیرپورٹ اور سفر دونوں میں فکرِآخرت کے کئی پہلو ہیں ۔ ایک تو یہ کہ عام حالات میں انسان کو زندگی اور وقت دونوں کے گزرنے کا احساس نہیں ہوپاتا۔ مگر سفر میں یہ احساس کئی گنا بڑ ھ جاتا ہے کہ وقت بھی گزر رہا ہے اور زندگی کی ڈور بھی ہاتھ سے ہر لمحے چھوٹ رہی ہے ۔عام حالات میں ہم آج میں جیتے ہیں ۔ جبکہ سفر میں انسان کی توجہ ماضی کی یاد یا مستقبل کی پلاننگ پرلگی رہتی ہے ۔جبکہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے مقامات بھی انسان کو زندگی کا احساس دلاتے ہیں ۔ یہی احساس عام زندگی میں بھی مطلوب ہے کہ انسان ہر لمحہ ماضی کو سوچ کر اپنا احتساب اور استغفار کرتا رہے اور آخرت کی آنے والی دنیا کاسوچ کر اس کی تیاری کرتا رہے ۔
ترکش ائیرلائن کی فلائٹ رات پونے دو بجے اپنے وقت پر روانہ ہوئی اورمقررہ وقت پر ترکی کے وقت کے حساب سے سوا پانچ بجے پہنچ گئی۔ ترکی کا وقت پاکستان سے دو گھنٹے پیچھے ہے ۔ گویا ساڑ ھے پانچ گھنٹے میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔کراچی کا استنبول سے فاصلہ تقریباًپانچ ہزار کلومیٹر کا ہے ۔پرانے زمانے کا بڑ ے سے بڑ ا بادشاہ بھی یہ سفر اتنے مختصر وقت میں طے نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آج کے انسان پر یہ کرم کر رکھا ہے جس پر اس کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے ۔
اس بات کوایک واقعاتی مثال سے بھی میں واضح کرنا چاہتا ہوں ۔اس سفرنامہ کی تصنیف سے قبل میں اسلام آباد آیا تو بعض دوستوں کے ہمراہ سوات اور کالام وغیرہ تک جانا ہوا۔ دوران سفر برادرم ندیم اعظم صاحب نے سوات کے متعلق ایک کتاب میں پڑ ھا کہ سکندراعظم بھی یہاں آیا تھا۔ انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ بہت سے یونانی ہندوستان پر حملے کے بعد واپس نہیں گئے ۔ یہیں رہ گئے تو اس کی کیا وجہ تھی؟ میں نے ان کو کئی وجوہات بتائیں اور ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یونان جو کہ ترکی سے متصل ہی تھا وہاں تک سفرکرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔وہاں تک واپس لوٹنا ہی سال سے اوپر کا سفر تھا۔ یہ بھی دیگر عوامل کے علاوہ یہاں یونانیوں کے رک جانے کا ایک عامل بنا۔آج کا انسان یہ طویل سفر انتہائی مختصر وقت میں کرتا ہے ، مگرجس ہستی نے یہ سفر ممکن بنایا ہے اس کا اعتراف کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ۔۔قسط نمبر 2 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں