ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 4
آیا صوفیا ، نیلی مسجد اور سات پہاڑ یاں
اسریٰ نے ہفتے کی صبح بارہ بجے تک آنے کے لیے کہا تھا۔ وہ شہر کے ایشیائی حصے میں رہتی تھی جبکہ ہم یورپی حصے میں مقیم تھے ۔ اس لیے کچھ تاخیر سے وہ ہم تک پہنچ ہی گئی۔اس کے ساتھ گاڑ ی میں اس کی دوست فلس بھی تھی جسے وہ بطور مترجم ساتھ لائی تھی۔ہم گاڑ ی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے اور راستے میں گفتگو شروع ہوئی۔ ترتیب یہ تھی کہ ہم انگریزی میں فلس سے اپنی بات کرتے اور پھر اسی کے ذریعے سے اسریٰ کا جواب ہم کو ملتا۔ کچھ گفتگو فلس سے بھی براہ راست ہوجاتی ۔یوں ہم سلطان احمد کے علاقے میں جاپہنچے جہاں استنبول کی تین اہم ترین تاریخی عمارات موجود تھیں ۔
پہلی اور سب سے اہم جگہ توپ کاپی کا محل تھا جو اب ایک میوزیم بن چکا ہے ۔ وقت کی کمی کی بنا پر ہم نے یہ طے کیا آج کے دن کہ ہم توپ کاپی نہیں جائیں گے ۔دوسری عمارت آیا صوفیہ کا میوزیم اور تیسری بلو مسجد یا سلطان احمد جامع تھی۔ ترکی میں مسجد کو جامع کہتے ہیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ تین تاریخی عمارات یا مقامات استنبول کی پہلی پہاڑ ی پر بنے ہوئے تھے ۔ استنبول کا قدیم شہر دراصل سات پہاڑ یوں پر بنا ہوا ہے ۔ان میں سے اہم ترین یہی پہاڑ ی ہے جس کی ہموار سطح پر بلو مسجد، آیا صوفیا اور توپ کاپی واقع تھے ۔ یہ شہر کا وہی یورپی حصہ تھاجس پر ٹیکسم ا سکوائر واقع ہے ۔ اپنی تاریخی حیثیت کے علاوہ یہ مقام جنوری 2016میں اس وقت دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں ہو گیا تھا جب یہاں داعش نے ایک خود کش حملہ کرایا تھا۔اس حملے میں 13غیر ملکی جرمن سیاح مارے گئے تھے ۔ ہم اس وقت اسی جگہ موجود تھے جہاں چندماہ قبل یہ حملہ ہوا تھا۔
ترکی کافی اور حورم سلطان کا حمام
مجھے ان تاریخی مقاما ت کودیکھنے میں جتنی زیادہ دلچسپی تھی ، ان دونوں خواتین یعنی اسریٰ اور فلس کو ان سے اتنی ہی کم دلچسپی تھی۔ ان کے لیے یہ ایک معمول کی جگہ تھی۔ انھیں زیادہ دلچسپی ہم سے باتیں کرنے میں تھی۔میری اہلیہ کی اس وقت تک ان سے گہری دوستی ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ بھی ان سے باتیں کر کے خوش تھیں ۔وہاں پہنچے تو اسریٰ نے ہمیں بہت اصرار کے ساتھ ترکی کافی پینے کے لیے کہا۔یہ کافی مشرقی یورپ ، شمالی افریقہ ، بلقان اور مڈل ایسٹ یعنی وہ ممالک جو عثمانی سلطنت کا حصہ رہے ہیں ، ان میں کافی مقبول ہے ۔اسریٰ اور فلس کا خیال تھا کہ یہ کافی ہم کو بھی بہت پسند آئے گی۔
کافی آئی تومجھے اندازہ ہوا کہ میرا متحان شروع ہو چکا ہے ۔ یہ ایک انتہائی تلخ قسم کی کافی تھی۔ عام کافی کے برعکس یہ پسی ہوئی کے بجائے کُٹی ہوئی کافی تھی جو ابلنے کے بعد تہہ میں جابیٹھی تھی مگر اس نے پانی کو جو دودھ اور مٹھاس کی ہر آمیزش سے خالی تھا، انتہائی تلخ کر دیا تھا۔ میں ان دونوں کا دل رکھنے کے لیے مسکرامسکرا کر کافی کے تلخ گھونٹ منہ میں اتارتا رہا اور اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ کپ زیادہ بڑ ا نہیں ہے ۔
ہم لوگ جس ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے وہ آیا صوفیا کے سامنے واقع تھا اور اس کے ساتھ ہی مشہور عثمانی خلیفہ سلطان عالیشان کی ملکہ حورم سلطان کا بنوایا ہواحمام تھا۔ان دونوں کا تفصیلی تعارف میں اس وقت کراؤں گا جب سلمانیہ مسجد کے ساتھ واقع ان کے مزار کا ذکر آئے گا۔
پبلک باتھ یا عوامی غسل خانے ترکوں کی خصوصی روایت تھی۔ بلکہ درحقیقت یہ قدیم تمدن کی ایک روایت تھی۔ کیونکہ اٹیچ باتھ کی جو عیاشی آج ہم لوگوں کے لیے ایک معمولی اور ناقابل تذکرہ چیز ہے وہ زمانہ قدیم میں اتنی عام نہ تھی۔نہانا تو دور کی بات ہے گھر میں بیت الخلاء بھی عام طور پر نہ ہوتے تھے ۔لوگ گھروں سے دور ویرانوں یا جنگلوں میں اس مقصد کے لیے جایا کرتے تھے ۔
بلکہ اس حوالے سے ایک دلچسپ چیز بھی قارئین کی نذر کرتا جاؤں ۔ میں ایک مغربی رسالے میں ایک سروے پڑ ھ رہا تھا۔اس سروے میں لوگوں کے سامنے دورِجدید کی اہم ترین ایجادات کا بیان تھا ۔ لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ ان میں سے کس ایجاد کو سب سے اہم سمجھتے ہیں ۔ ان ایجادات میں کمپیوٹر سے لے کربجلی جیسی مفید ایجادات شامل تھیں ۔ مگر لوگوں نے جس ایجاد کو سب سے بڑ ی اور مفید ایجاد قرار دیا وہ باتھ روم کا فلش سسٹم تھا۔
بہرحال ملکہ حورم سلطان نے یہ حمام عوام کی خدمت کے لیے بنوایا تھا۔یہ عرصہ سے بند پڑ ا ہوا تھا۔ مگر حال ہی میں ایک کمپنی نے اسے حکومت سے لے کر سیاحوں کو یہ سروس فراہم کرنا شروع کر دی ہے ۔تاہم ہمیں نہانے ، اسٹیم باتھ لینے یا مساج کرانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس لیے کافی پی کر ہم جلدی سے اٹھ گئے کہ ترکی کافی کے بعد اسریٰ اور فلس مزید کوئی ترکی تحفہ نہ منگوالیں ۔خیر بعد میں میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ کافی کا ٹیسٹ عام کافی سے بہت بہتر تھا۔ انھوں نے اپنی ’’گھریلو اجتہادی صلاحیت‘‘ کو بروئے کار لا کر بتایا کہ اگر اس کافی میں دودھ اور چینی ڈال کر بنایا جاتا تو یہ کافی بہت بہتر ہوجاتی۔ ظاہر ہے کہ اس گہری بصیرت تک صرف خواتین پہنچ سکتی ہیں ۔میں ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کچھ نہ کہہ سکا۔
آیا صوفیہ: رومن اور بازنطینی ایمپائر سے عثمانی سلطنت تک
ابھی تک میں نے کئی د فعہ آیا صوفیا کا ذکر کیا ہے ۔ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہے کیا چیز؟ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ یہ عیسائیوں کی مسجد قرطبہ ہے ۔ یعنی جس طرح مسجد قرطبہ موجودہ اندلس میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کی نشانی ہے ، جسے اندلس میں مسیحی حضرات کا اقتدار قائم ہونے کے بعد چرچ میں بدل دیا گیا، اسی طر ح آیا صوفیہ اس عظیم سلطنت کی آخری یادگار ہے جو ہزار برس تک دنیا کی سب سے بڑ ی مسیحی سلطنت رہی۔یہاں تک کہ سلطان محمد فاتح نے سن1453میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور اس کا نیانام استنبول رکھ دیا گیا۔اس کے بعد آیا صوفیہ کے چرچ کو مسجد بنادیا گیا اور بیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک یہ ایک مسجد رہا۔
یہ مسیحی سلطنت خود اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے جسے مکمل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ، مگر اس کا سرسری تعارف ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ آیا صوفیا کی اہمیت سمجھ میں آ سکتی ہے ، نہ استنبول کی اور نہ اس بات کی کہ کیوں صدیوں تک مسلمان اس کوشش میں رہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کر لیں ۔ قسطنطنیہ یا استنبول کی فتح کا واقعہ اور پس منظر تو میں حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری کے احوال میں بیان کروں گا، مگر سردست بازنطینی اور رومن ایمپائر کا مختصر تعارف کرادوں ۔
استنبول جس کا پرانانام قسطنطنیہ ہے بازنطینی سلطنت کا صدر مقام تھا۔بازنطینی کا نام سن کر قارئین پریشان نہ ہوں ۔ یہ اسی رومی سلطنت ہی کا ایک دوسرا نام ہے جس کے حکمران قیصرکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی تھی۔یہ ابتدامیں رومی سلطنت کہلاتی تھی۔ حضرت عیسیٰ سے تقریباً پانچ صدی قبل سے لے کر 27قبل مسیح تک یہ سلطنت ایک جمہوری ریاست کے طور پر کام کرتی رہی ۔ یعنی عوام اراکین کو منتخب کرتے اور وہ حکومت کا نظام چلاتے ۔ روم کا شہر اس کا مرکز تھا اوریہ اس دور میں یورپ کی ایک عظیم طاقت تھی۔27ق م کے بعد جمہوریت کے بجائے بادشاہت کا نظام آ گیا۔سلطنت کی فتوحات بڑ ھتی چلی گئیں اور یہ یورپ ، ایشیا اور افریقہ کی ایک عظیم طاقت بن گئی۔
ابتداء میں یہ ایک بت پرست مشرکانہ ریاست تھی۔بعد میں یہاں عیسائیت پھیلنا شروع ہوئی اور چوتھی صدی میں رومی حکمران قسطنطین کے قبول مسیحیت کے بعد یہ ایک مسیحی سلطنت بن گئی۔اسی نے روم کے بجائے قسطنطنیہ کو اس کا صدر مقام بنادیا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں یہ عظیم سلطنت انتظامی طور پر دو حصوں مغربی رومن سلطنت اور مشرقی رومن سلطنت میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی سلطنت کا مرکز قسطنطنیہ اور مغربی کا روم تھا۔ مغربی رومن سلطنت کو تیزی سے زوال آیا اورپانچویں صدی عیسوی تک یورپ کے وحشی قبائل ، اندرونی خانہ جنگی اور دیگر عوامل کی بنا پر بطور سلطنت اس کا خاتمہ ہو گیا۔
تاہم مشرقی رومن سلطنت پوری شان و شوکت سے قائم رہی اور سرحدوں میں کمی بیشی کے باوجود اگلے ہزار برس تک دنیا کی سب سے بڑ ی مسیحی طاقت رہی۔یہاں تک کہ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر لیا۔ یہ شہر استنبول کہلایا اور بیسویں صدی تک یہ عثمانی خلافت کا دارالحکومت رہا۔ اس تفصیل سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ استنبول کا شہر دنیا کا واحد شہر ہے جو تقریباً سترہ صدیوں تک مسلسل دنیا کی اہم ترین سپر پاورزکادارالحکومت رہا ہے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں