ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 6
دھوپ چھاؤں ، خزاں اور بہار
خیر اسی میں چار بج گئے ۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ باقی وقت کیسے گزاریں کہ مغرب سے پہلے فیری میں بیٹھ کر جائیں اور ڈوبتے سورج کا منظر دیکھیں ۔ گرمی نے ویسے ہی بے حال کر دیا تھا اور کرنے کو کچھ نہ تھا۔ آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ واپس ہوٹل چلتے ہیں ۔چنانچہ واپسی کا سفر شروع ہوا۔ جو نسبتاً پژمردہ انداز میں طے کیا۔ کیونکہ ہم نے سب سے زیادہ تعریف پرنسز آئی لینڈ کی سن رکھی تھی۔ مگر یہاں آ کر کوئی خاص مزہ نہیں آیا تھا۔مگر ہم ا س بات سے بے خبر تھے کہ سفر کے بہترین مقامات اور بہترین دن ابھی آنے والے ہیں ۔
یہی اس دنیا کا اصول ہے ۔ یہاں بعض دن اچھے نہیں ہوتے ۔ بعض ماہ و سال اور موسم بھی اچھے نہیں ہوتے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو جس اصول پر بنایا ہے اس میں آنے والے دنوں میں اکثر زیادہ بھلائی ہوتی ہے ۔ چنانچہ ایسے مواقع پر انسان کو صبر کرتے ہوئے ہمیشہ مستقبل پر نظر رکھنا چاہیے ۔ کسی معاملے میں توقع پوری نہ ہو تو دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے ۔اللہ کی دنیا اسی اصول پر بنی ہے ۔ کبھی رات کبھی دن ۔ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں ۔ کبھی خزاں کبھی بہار ۔اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ بندہ زندگی کی بہار اور نعمتوں کی چھاؤں میں شکر گزار ہوتا ہے یا نہیں ۔اسی طرح بندہ زندگی کی خزاں اور محرومی کی دھوپ میں ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں ۔ جنت کی ابدی بہار اور فردوس کی ابدی چھاؤں ایسے ہی لوگوں کا بدلہ ہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کمیونیکیشن ایج اور اسلام کی دعوت
جیسا کہ شروع میں بیان ہوا کہ ہمارا یہ سفر بغیر کسی تیاری کے بہت جلدی میں ہوا تھا۔اس لیے کہیں ہوٹل وغیرہ کچھ بھی بک نہ کراپائے تھے ۔چلنے سے کچھ دیر قبل آن لائن اِسی ہوٹل کی بکنگ کرالی تھی جس میں اب مقیم تھے ۔ثنا کے ساتھ جو ابتدائی پروگرام طے ہوا تھا ا س کے مطابق ہمیں استنبو ل کے علاوہ گوریم کے شہر بھی جانا تھا جو ترکی کے وسط میں اناطولیہ کے علاقے میں واقع تھا۔ویزہ میں تاخیر کی وجہ سے وہاں کا پروگرام بھی ثنا کے ساتھ ممکن نہ ہو سکا۔ترکی روانگی سے قبل جہاز کی بکنگ آن لائن کرانا چاہی تو وہاں جانے کے لیے جو سیٹ دستیاب ہوئی، وہ ثنا کی واپسی کے بعد 31تاریخ کی تھی۔ اب پرسوں ہماری وہاں روانگی تھی اور کوئی ہوٹل ابھی تک بک نہیں کرایا تھا۔ میری اہلیہ نے انٹرنیٹ پر بہت ڈھونڈ کر ایک اچھا ہوٹل نکال لیا ۔ کریڈٹ کارڈ سے ایڈوانس ادائیگی کی وجہ سے ہوٹل کافی سستا مل گیا ۔ یوں ہم نے اس کی آن لائن بکنگ کرالی۔
ثنا نے جو پہلے ہی سے گوریم میں موجود تھی ہمیں بتادیا تھا کہ وہاں بھی ایئر پورٹ سے شہر تک ٹیکسی کا کرایہ کافی زیادہ تھا۔ چنانچہ میں نے انٹر نیٹ پر شٹل طریقہ ڈھونڈا تو معلوم ہوا 25لیرا میں شٹل مل رہی ، مگر اس کے لیے فون کر کے بکنگ کرانی ہو گی۔ ہمار ے پاس فون تھا نہ ہمیں ترکی آتی تھی۔نہ اتنا وقت تھا کہ ای میل بھیج کر اس کا انتظار کرتے ۔ چنانچہ اسریٰ کو فون کر کے اسے شٹل کا نمبر دیا۔تھوڑ ی دیر میں اس نے شٹل کی بکنگ کرادی۔ ساتھ میں جو کچھ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہمیں بتایا اس سے ہم نے یہ سمجھ لیا کہ فنڈا نام کا شٹل ڈرائیور ائیر پورٹ پر ہمیں لینے آئے گا۔
واپس آ کر بھی دو چار دن ہمیں استنبول رکنا تھا۔چنانچہ ہم نے ایک ہوٹل جا کر پسند کیا۔ اور انٹرنیٹ پر اس کی بکنگ کرالی۔ ہوٹل والے نے اس کے ریٹ کافی زیادہ بتائے تھے ، مگر نیٹ پر مخصوص ویب سائٹ پر اس ہوٹل کا کمرہ کافی سستا مل گیا۔اسی طرح ہم موبائل فو ن سے جو فوٹو لے رہے تھے وہ وائی فائی اور انٹر نیٹ کے ذریعے سے اپنے احباب کو منتقل بھی کرتے جا رہے تھے ۔ گھر والوں سے بھی اسی سے بات کر رہے تھے ۔ اسریٰ کے حوالے سے موبائل اورانٹرنیٹ کے ذریعے سے ترجمے کا ذکر پیچھے گزرچکا ہے ۔ اسریٰ کے ساتھ دوران سفر یہ تجربہ بھی ہوا کہ وہ جہاں ٹریفک میں پھنستی فوراً انٹرنیٹ کے ذریعے سے دوسرا متبادل راستہ ڈھونڈ کر کسی اور سڑ ک سے نکل جاتی۔
کریڈٹ کارڈ کے علاوہ اس سفر میں پیسے کی جب بھی ضرورت پیش آئی تو اپنے پاکستانی اے ٹی ایم کارڈ سے ترکی میں ہر جگہ مقامی کرنسی میں اس طرح پیسے نکلوائے جیسے میرا اکاؤنٹ یہیں موجود ہو۔اس کے علاوہ موبائل فون ، انٹرنیٹ اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی ہی کا کمال تھا کہ سفر پر ہر قدم پر میں یہ پہلے سے معلوم کرنے کی پوزیشن میں تھا کہ اگلے دن یا اگلے پہر کیسا موسم ہو گا۔ درجہ حرارت کیا ہو گا۔ دھوپ ہو گی یا ابر۔ خنکی ہو گی یا گرمی۔ بارش ہو گی یا کھلا موسم ہو گا۔ہوٹل میں نماز کے لیے قبلہ بھی انٹرنیٹ کی مدد سے معلوم کیا تھا۔
اس ساری تفصیل کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فو ن کے مجموعے نے دنیا کوبدل کر رکھ دیا۔ انسان کو زندگی میں وہ سہولتیں اور آسانیاں عطا کی ہیں کہ جن کی کوئی حد نہیں ۔ یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے اور شکر گزاری کرنے کا ایک عظیم موقع ہے ۔ مگر لوگ ان ذرائع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں مگر شکر گزاری کے بجائے یہ چیزیں غفلت اور معصیت کا سبب بن رہی ہیں ۔
تاہم میرے نزدیک کمیونیکیشن اور انفارمیشن کے میدان میں یہ انقلابی تبدیلی ایک سادہ تبدیلی نہیں ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کا آغاز ہے جس کے تحت وہ پوری دنیا تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں ۔یہ کام اصل میں تو امت مسلمہ کی ذمہ داری تھی جو اس نے پوری نہیں کی۔ بظاہر مستقبل میں بھی امت اور اس کی لیڈرشپ کا اس بات کاکوئی ارادہ نہیں لگتا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا انتظام کر دیا ہے ۔اس انتظام میں ایک طرف دین کی حقیقی دعوت ہر قسم کے اضافوں سے پاک کر کے اصل شکل میں واضح کر دی گئی ہے ۔ یہ دعوت اس طرح واضح ہے کہ جو شخص تعصب اور غفلت سے بلند ہوجائے وہ اسے بآسانی پا سکتا ہے ۔دوسری طرف اس دعوت کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے انفارمیشن ایج اور کمیونیکیشن ایج کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔ اب وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جو غفلت و تعصب سے بلند ہوکر اس دعوت کو دریافت کریں ، اسے اپنی زندگی بنائیں اور پھر اس کو زندگی کا مشن بنا کر دنیا بھر تک پہنچائیں ۔یہ پروردگار عالم کی اعلیٰ ترین عنایات بہت آسانی کے ساتھ حاصل کرنے کا وہ سنہری موقع ہے جو نہ کبھی پہلے کسی کو دیا گیا اور نہ کبھی آئندہ کسی کو دیا جائے گا۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں