ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 23

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 23
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 23

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انسان اور خدا

اسی نشست پر بیٹھے بیٹھے میں ان چھوٹے چھوٹے ماڈلوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک خدا اور انسان کا تعلق ایک نئے پہلو سے سمجھ میں آیا۔ خدا اپنی ذات میں یکتا ہے ، اس جیسا کوئی نہیں ۔ تاہم صفات کے پہلو سے ، چاہے بہت ہی کم درجہ میں سہی، انسان خدا کا ایک عکس ہے ۔ دیکھنے ، سننے بولنے کی استعدادکے علاوہ اختیار، ارادہ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، خیر و شر کا شعور اور ذوق جمال وہ چیزیں ہیں جن میں انسان خدا کا عکس لیے ہوئے ہے ۔اس پہلو سے انسان کو گویا چھوٹا سا’’خدا‘‘ بنا کر زمین پر بھیجا گیا ہے ۔

جو انسان اب اس دنیا میں بظاہر صاحبِ اختیار ’’خدا‘‘ ہوتے ہوئے اپنی اصل حیثیت یعنی بندہ ہونے کو دریافت کر لے اور سرکشی کا راستہ چھوڑ کر بندگی کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے خدا نہ سہی کائنات کا بادشاہ ضرور بنادیں گے ۔اور جو غافل اور سرکش اس معمولی سی مہلت میں ملے کچھ اختیارات کو پا کراپنے رب کو بھول گیا کل قیامت کے دن اس کو جہنم کے قید خانے میں بند کر دیا جائے گا۔ اس وقت یہ چھوٹا’’خدا‘‘ جان لے گا کہ اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی۔

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 22  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مصالحہ بازار، والدہ سلطان مسجداور دوبارہ گلاطہ برج

مینیا ترک سے ہم جلد ہی واپس ہوگئے ۔چنانچہ شام فارغ تھی۔ ہمارے جانے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ میری اہلیہ میں خواتین کی وہ خاص حس بیدار ہو چکی تھی جسے شاپنگ کہتے ہیں ۔ اسریٰ اور اوزگی نے انھیں بتایا تھا کہ ایمینونو اسٹیشن کے پاس ایک اچھا بازار ہے ۔ اس لیے شام کو وہاں کے لیے نکلے ۔کباتش سے میٹرو ٹرین میں بیٹھ گئے اور ایمینونو اسٹیشن پر اترگئے ۔

بازار میٹرو اسٹیشن سے اتر کر ہی واقع تھا، مگراس وقت بند ملا۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آج اتوار تھا۔البتہ ساتھ واقع اسپائس بازار کھلا ہوا تھا۔ اس بازار میں مصالحہ جات اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کی بہتات تھی۔یہ چیزیں اس کثرت اور خوبصورتی کے ساتھ سجی ہوئی تھیں کہ گاہک کچھ خریدے بغیر واپس نہ ہو سکتا۔جبکہ دیگر اشیا کی دکانیں بھی موجود تھیں ۔ بیگم نے ان سے کچھ خریداری کی۔ اذان ہوگئی تو ہم نے قریب واقع ینی جامع یعنی نئی مسجد میں نماز پڑ ھی۔ یہ مسجد نام کی نئی تھی ورنہ تو سترہویں صدی میں خلیفہ وقت کی ماں صفیہ سلطانہ نے اس کو تعمیر کرایا تھا۔اسی لیے اس کو والدہ سلطان مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔

مسجد ترکی طرز تعمیر کا دلکش نمونہ تھی۔ وہی ایک مرکزی اور نقش و نگار سے مزین گنبد۔ وہی ایک مرکزی فانوس۔یہاں البتہ ایک خاص بات یہ تھی کہ مٹھائی تقسیم ہورہی تھی ، مجھے اندازہ ہوا کہ رمضان کی آمد کی خوشی میں ہورہا ہے ۔ کیونکہ آج چاند رات تھی۔

ہم کچھ دیر مسجد میں رک کر باہر نکلے تو اندھیرا پھیل چکا تھا اور روشنیاں جل رہی تھیں ۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ جگہ کچھ مانوس سی ہے ۔اس پر اہلیہ نے توجہ دلائی کہ سامنے گلاطہ برج ہے اور وہی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہم نے اسریٰ اور فلس کے ساتھ ڈنر کیا تھا۔اب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ گولڈن ہارن کے دہانے پر تھا۔یعنی یہاں سے باسفورس کا پانی زمین پر گویا کہ ایک یو ٹرن لے کر ایک بڑ ے دریا کی طرح آگے بڑ ھتا ہے ۔ پہلے ہم یہاں اسریٰ کے ساتھ گاڑ ی میں آئے تھیتو برج کے دوسری طرف اترے تھے ۔

ہمارا وائی فائی دو دن سے خراب تھا۔ چنانچہ میں نے اہلیہ سے کہا کہ ہم اسریٰ کے کزن کے ریسٹورنٹ میں جا کر اس سے ملتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اسریٰ کو اپنی خیریت کی اطلاع دے دیتے ہیں ۔ پھر اسریٰ ہماری خیریت کی اطلاع پاکستان دے دے گی کیونکہ اس کا میرے بھتیجے سے رابطہ تھا۔چنانچہ ہم پیدل چلتے ہوئے برج کے اس حصے میں پہنچے اور آخر کار اس درجنوں ریسٹورنٹ میں سے اس خاص ریسٹورنٹ کو ڈھونڈ ہی لیا جہاں ہم نے کھانا کھایا تھا۔

ترکی نمی دانم

تاہم یہاں ہمیں بڑ ے سخت مرحلے سے دوچار ہونا پڑ ا۔ تمام ریسٹورنٹ والوں کی طرح یہاں کے ملازمین بھی ہمیں گاہک سمجھ کر اندر بلانے لگے ۔ ہم اندر چلے گئے اور انگریزی میں ریسٹورنٹ کے مالک کے بارے میں پوچھنے لگے تو جواب میں ملازمین انواع اقسام کے کھانوں کی تفصیل بتانے لگتے ۔ہم نے بہت کوشش کی کہ ان کا دھیان کھانوں سے ہٹا کراپنی بات کی طرف لگائیں ۔ مگر وہ کچھ سننا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ سوائے اس کے کہ ہمیں کوئی کھانا پسند کروادیں ۔ ایک ملازم جس نے اس روز ہمارے لیے کھانا لگایا تھا ، اس کو ہم نے یاد دلانے کی کوشش کی کہ ہم فلاں فلاں دن آئے تھے ، مگر وہ بھی نہ سمجھ سکا۔ ظاہر ہے کہ گاہک تو بہت آتے ہیں ، شکل کون یاد رکھتا ہے ۔

تھک ہار کے ہم واپس لوٹ گئے ۔برج پر جاتے ہوئے میری اہلیہ کو یاد آیا کہ اس روز موبائل سے جو تصویریں لی تھیں ان تصویروں میں ایک میں اسریٰ کا کزن بھی موجود تھا۔ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی یادداشت نے بالکل درست کام کیا تھا۔ ہم دوبارہ لوٹے اور اس دفعہ کچھ کہنے سننے کے بجائے ملازمین کو وہ تصویر دکھادی۔جس کے بعد انھوں نے برابر والے ریسٹورنٹ سے اسریٰ کے کزن کو بلادیا۔وہ فوراً ہم کو پہچان گیا۔اس کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ چنانچہ ہم نے اس کو بتایا کہ ہمیں اسریٰ سے رابطہ کرنا ہے ۔ اس نے فوراً اس کو فون ملایا۔ مگر ظاہر ہے کہ اسریٰ بھی انگریزی نہیں بول سکتی تھی۔

اس کا آسان حل یہ نکالا گیا کہ اس نے اپنے ریسٹورنٹ کے وائی فائی سے ہم کو کنکٹ کر دیا۔ جس کے بعد بذریعہ تحریر اسریٰ سے رابطہ ہو گیا۔بلکہ اسریٰ ہی سے کیا وہیں بیٹھے بیٹھے ہم نے پورے خاندان سے رابطہ کر لیا۔ کیونکہ دودن سے وائی فائی خراب تھا اور سب سے رابطہ منقطع تھا۔

اس دوران میں اس نے ہمیں کھانے کی آفر کی جو ہم نے شکریہ کے ساتھ منع کر دی۔ البتہ موقع غنیمت جان کر میں نے اس سے کہا کہ ہمیں دودھ والی چائے چاہییے ۔ اس شرط پر کہ ہم پیسے دیں گے ورنہ نہیں پئیں گے ۔ اس کے تمام تر اصرار کے باوجود ہم پیسوں والی شرط پر قائم رہے ۔ میں نے اسے بتایا کہ شام کے وقت دودھ والی چائے ہمارا معمول ہے اور ترکی میں دودھ والی چائے کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ یہاں آ کر ہم اس عیاشی سے محروم تھے ۔اس کا شکریہ کہ وہ ہماری بات مان گیا اور ہم نے اس روز اسی خوبصورت مقام پر بیٹھ کر شام کی چائے پینے کی عیاشی کر لی۔

تاہم آج یہاں اس روز کی طرح رش نہ تھا۔ گرچہ آج چھٹی کا دن تھا۔ مگر آج چاند رات کی وجہ سے کم لوگ یہاں موجود تھے ۔چائے پی کر ہم نے بل دیا اور رخصت ہونے لگا تو وہ دوبارہ آ گیا اور کہنے لگا کہ آپ لوگوں کو میرا بھائی ہوٹل چھوڑ دے گا۔اس کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے ۔ہم اس کا شکریہ ادا کر کے روانہ ہوئے اور ہوٹل پہنچے تو اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اصرار کیا مگر وہ پھر بھی نہ مانا۔یوں ایک اور اچھی اور پرلطف شام رب کی عنایتوں اور ترکوں کی محبتوں کے ساتھ تمام ہوئی ۔  (جاری ہے)

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

سیرناتمام -