پاکستان ہائی کمیشن ویزا سروس میں بڑی بے ضابطگیاں کنڑول سیکورٹی گارڈ کمیٹی کو دے دیا گیا
لندن (ویب ڈیسک) ”پاکستان ہائی کمشن یو کے“ میں ویزا سروس کے کنٹریکٹ کے سلسلہ میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے، ہائی کمیشن نے پاکستان جانے والے افراد کی ویزا درخواستیں وصول کرنے کیلئے ایک ہینڈلنگ کمپنی ”جیریز“ کو کنٹریکٹ دے رکھا تھا لیکن اس دفعہ اس کمپنی کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی گئی، معلوم ہوا ہے کہ ہائی کمشن نے وزارت خارجہ کی طرف سے طے کئے قواعد و ضوابط اور اپنی طرف سے نئے ٹینڈر کیلئے مختلف کمپنیز کو جاری کردہ ایڈوائس کے مندرجات کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے ”جیریز“ اور ”ٹی سی ایس“ جیسی تجربہ کار کمپنیز کی بجائے ویزا ہینڈلنگ کا نیا کنٹریکٹ نسبتاً ایک نئی اور ناتجربہ کار کمپنی ”سینشل گروپ سکیورٹی“ کو دے دیا جس کا ماضی میں ویزا ہینڈلنگ کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی یہ کمپنی ہائی کمیشن کی ایڈوائس کے مطابق اچھا فنانشل ریکارڈ رکھتی ہے بلکہ ”کمپنی ہاﺅس انگلینڈ“ کے ریکارڈ کے مطابق اس کے اکاﺅنٹس میں صرف 14,500 پونڈ کی معمولی رقم ہے۔ روزنامہ خبریں کے مطابق ”جیریز“ 2012ءسے ہائی کمشن اور اس کے ذیلی دفاتر کے لئے ویزا ہینڈلنگ کا کام کر رہی ہے۔ قوائد کے مطابق کنٹریکٹ کے لئے اپلائی کرنے والی کمپنیز کو بڑے پیمانے پر ویزا ہینڈلنگ کا کم از کم تین سال کا تجربہ ہونا چاہئے لیکن ”سینشل گروپ سکیورٹی“ اس شق پر پورا نہیں اترتی کیونکہ اسے سرے سے اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہے، پاکستان ہائی کمشن کا موقف یہ ہے کہ ہم نے یہ ’بولی‘ حصہ لینے والی تینوں کمپنیز کی موجودگی میں کی ہے اور ہائی کمشن میں ہونے والے اس پراسیس کے دوران ان تینوں کے نمائندے موجود تھے لہٰدا اس میں بے قاعدگی یا ناانصافی کا کوئی امکان نہیں ہے، اخبار کے مطابق اس حد تک تو ہائی کمشن کا موقف درست ہے لیکن اس بات کے بھی واضح شواہد موجود ہیں کہ ہائی کمشن کے ایک سرکردہ آفیسر کو ”جیریز“ کی متوقع کم ازکم وی ویزا درخواست کی ہینڈلنگ فیس 19 پونڈ 99 پنس تک محدود رکھے تا کہ یہ ٹھیکہ انہیں دیا جا سکے، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ کمپنی کو یہ کنٹریکٹ دلوانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کی ایک اعلیٰ شخصیت نے کردار ادا کیا اور ہائی کمشن حکام نے اسی شخصیت کے دباﺅ پر ان کے منظور نظر افراد کو یہ کنٹریکٹ دیا اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس ناتجربہ کار اور غیر معروف کمپنی کا نہ تو پاکستان میں کوئی دفتر ہے اور نہ ہی لندن یا برطانیہ کے کسی دوسرے شہر میں جہاں وہ ویزا درخواستوں کی ہینڈلنگ کا کام کر سکیں، کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے بھی کوئی پاکستانی شہریت کا حامل نہیں ہے چنانچہ قوائد کے مطابق اس کام میں یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے جسے مدنظر نہیں رکھا گیا مذکورہ کمپنی کا واحد کام سکیورٹی گارڈز کی فراہمی ہے، حکمران جماعت کا ایک وزیر جو ان دنوں لندن میں ہے اس نے یہ تمام معاملہ صیخہ راز میں رکھنے اور کسی قسم کی خبر کی اشاعت اور نشر نہ کرنے کے ’معاملات‘ طے کرنے کیلئے لندن کے ایک ’لفافہ رپورٹر‘ کی شہرت رکھنے والے رپورٹر کو وسطی لندن کے ایک ریستوران میں بلایا اور اس خبر کو دبانے کے لئے معقول ماہانہ رقم کے عوض معاملات طے کئے۔