’میں نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں کی بلکہ ان لڑکیوں نے۔۔۔‘ برطانوی عدالت میں پاکستانی شہری نے ایسی شرمناک بات کہہ دی کہ سن کر جج کا بھی چہرہ لال ہوگیا، ہنگامہ برپاہوگیا کیونکہ۔۔۔
لندن (نیوز ڈیسک)برطانیہ میں ایشیائی باشندوں پر مشتمل راچڈیل جنسی گینگ کے پاکستانی نژاد سرغنہ شبیر احمد کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے شرمندگی یا پشیمانی کا اظہار کرنے کی بجائے الٹا ایسی شرمناک بات کہہ دی کہ عدالت میں بیٹھا ہر شخص اس کی بے حیائی اور ڈھٹائی پر حیران رہ گیا۔
دی مرر کی رپورٹ کے مطابق 59 سالہ شبیر احمد کا کہنا تھا کہ اس نے کمسن لڑکیوں کو زبردستی جنسی تعلق پر مجبور نہیں کیا بلکہ وہ جسم فروشی کرتی تھیں اور اس کام سے پیسے کمانے کا گر خوب جانتی تھیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کے پاس آنے والی لڑکیاں اسے ’ڈیڈی‘ کہتی تھیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا تھا کہ وہ میرے پاس کیا لینے آتی تھیں۔ ملزم نے کمسن لڑکیوں کو بار بار جسم فروش کہہ کر مخاطب کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔
’اس لڑکی کا ریپ میں نے نہیں کیا کیونکہ میں تو۔۔۔‘ ریپ کے مقدمے میں گرفتار شخص نے پولیس افسر سے ایسی بات کہہ دی کہ ہر کسی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، پورے ملک میں ہنگامہ ہوگیا کیونکہ وہ شخص دراصل۔۔۔
لیور پول کراﺅن کورٹ میں نو ملزمان کو پیش کیا گیا تھا جن میں گروہ کا سرغنہ شبیر احمد بھی شامل تھا۔ سزا کا فیصلہ سناتے ہوئے جج جیرالڈ کلفٹن کا کہنا تھا ”تم لوگوں کو بھیانک جنسی جرائم کے الزامات میں سزا دی جارہی ہے جن کا اتکاب 2008ءسے 2010ءکے درمیان کیا گیا۔ ان جرائم میں متعدد کمسن لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان کی عصمت دری کرنے کے جرائم شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ لڑکیوں کو انتہائی بے رحمی سے اور وحشیانہ انداز میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تم میں سے کچھ لوگوں نے یہ جرائم اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے کئے اور کچھ کیلئے یہ مال کمانے کا ذریعہ تھے۔ تم سب لوگوں نے ان کمسن لڑکیوں سے ایسا سلوک کیا گویا وہ بالکل بے وقعت تھیں اور ان کی کوئی عزت نہ تھی۔“
اس سے پہلے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایشیائی باشندوں پر مشتمل گینگ کے ارکان کمسن لڑکیوں کو پہلے سگریٹ اور نشے پر لگاتے تھے اور پھر انہیں اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بناتے تھے۔ راچڈیل شہر میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے اس گروہ نے درجنوں کمسن لڑکیوں کو نشانہ بنایا۔ ان کے بھیانک جرائم کے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے تھری گرلز (Three Girls) کے نام سے ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی ہے۔