دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ چودہویں قسط

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ چودہویں ...
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ چودہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم چلتے چلتے اس دروازے کے قریب آگئے جہاں سے حشر کا راستہ تھا۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
’’کیا اب ہمیں واپس میدان حشر جانا ہوگا؟‘‘
’’کیوں کیا وہاں جانے کا شوق ختم ہوگیا؟‘‘، اس نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔
’’نہیں ایسی بات نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہاں آگیا ہوں تو اپنے گھر والوں سے مل لوں۔ جب ہم شروع میں یہاں آئے تھے تو تم مجھے براہ راست اوپر لے گئے تھے۔ اب تو میرے گھر والے امت محمدیہ کے کیمپ میں پہنچ چکے ہوں گے؟‘‘

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ تیرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تم انسان اپنے جذبوں کو تہذیب کے لفافے میں ڈال کر دوسروں تک منتقل کرنے کے عادی ہوتے ہو۔ کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ اپنی گھر والی کے پاس جانا چاہتے ہو۔ یہ بار بار گھر والوں کے الفاظ کیوں بول رہے ہو؟‘‘
صالح نے میری بات پرہنستے ہوئے تبصرہ کیاتو میں جھینپ گیا۔ پھروہ مسکراکر بولا:
’’شرماؤ نہیں یار۔ ہم وہیں چلتے ہیں۔ یہ خادم تمھاری ہر خواہش پوری کرنے پر مامور ہے۔‘‘
ہم جس دنیا میں تھے وہاں راستے، وقت اور مقامات سب کے معنی اور مفہوم بالکل بدل چکے تھے۔ اس لیے صالح کا جملہ ختم ہونے کے ساتھ ہی ہم اسی پہاڑ کے قریب پہنچ گئے جس کے اردگرد تمام نبیوں اور ان کی امتوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔
’’شاید میں نے تمھیں پہلی دفعہ یہاں آتے وقت یہ بتایا تھا کہ اس پہاڑ کا نام ’اعراف‘ ہے۔ اسی کی بلندی پر تم گئے تھے۔ اور یہ دیکھو امتِ محمدیہ کا کیمپ قریب آگیا ہے۔‘‘
ہم پہاڑ کے جس حصے میں تھے وہاں اس کا دامن بہت دراز تھا۔ ا س لیے وہاں بہت گنجائش تھی، مگر وہ پورا مقام اس وقت ان گنت لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ پہاڑ کے اردگرد اس قدر رش شاید کسی اور جگہ نہیں تھا۔
میں نے صالح سے مخاطب ہوکر کہا:
’’لگتا ہے سارے مسلمان یہاں آگئے ہیں۔‘‘
’’نہیں بہت کم آئے ہیں۔ امت محمدیہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس لیے اس کے مقربین اور صالحین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ وگرنہ بیشتر مسلمان تو ابھی میدان حشر ہی میں پریشان گھوم رہے ہیں۔‘‘
’’تو میرے زمانے کے مسلمان بھی یہاں ہوں گے۔‘‘
’’بدقسمتی سے تمھارے معاصرین میں سے بہت کم لوگ یہاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ابتدائی حصے کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ آخری زمانے کے البتہ کم ہی لوگ یہاں آسکے ہیں۔ تمھارے زمانے میں تو زیادہ تر مسلمان دنیا پرست تھے یا فرقہ پرست۔ یہ دونوں طرح کے لوگ فی الوقت میدان حشرکی سیر کررہے ہیں۔ اس لیے تمھارے جاننے والے یہاں کم ہوں گے۔ جو ہوں گے ان سے تم جنت میں داخلے کے بعد دربار میں مل لینا۔ یہاں تو ہم صرف تمھارے ’گھر والوں‘ سے ملا کر تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کریں گے اور فوراً واپس لوٹیں گے۔ خبر نہیں کس وقت حساب کتاب شروع ہوجائے۔‘‘
’’یہ دربار کیا ہے؟‘‘
صالح کی گفتگو میں جو چیز ناقابل فہم تھی میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا۔
’’حساب کتاب کے بعدجب تمام اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک نشست ہوگی۔ اس کا نام دربار ہے۔ اس نشست میں تمام اہل جنت کو ان کے مناصب اور مقامات رسمی طور پر تفویض کیے جائیں گے۔ یہ لوگوں کی ان کے رب کے ساتھ ملاقات بھی ہوگی اور مقربین کی عزت افزائی کا موقع بھی ہوگا۔‘‘
میں اس سے مزید کچھ اور دریافت کرنا چاہتا تھا، مگر گفتگو کرتے ہوئے ہم کیمپ کے کافی نزدیک پہنچ چکے تھے۔ یہ خیموں پر مشتمل ایک وسیع و عریض بستی تھی۔ اس بستی میں لوگوں کے کیمپ مختلف زمانوں کے اعتبار سے تقسیم تھے۔ بعض خیموں کے باہر کھڑے ان کے مالکان آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ یہیں مجھے اپنے بہت سے ساتھی اور رفقا نظر آئے جنہو ں نے دین کی دعوت میں میرا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ان کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جوانیاں، اپنے کیرئیر، اپنے خاندان اور اپنی خواہشات کو کبھی سر پر سوار نہیں ہونے دیا تھا۔ ان سب کو ایک حد تک رکھ کر اپنا باقی وقت، صلاحیت، پیسہ اور جذبہ خدا کے دین کے لیے وقف کردیا تھا۔ اسی کا بدلہ تھا کہ آج یہ لوگ اس ابدی کامیابی کو سب سے پہلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا وعدہ دنیا میں ان سے کیا گیا تھا۔
یہیں ہمیں امت مسلمہ کی تاریخ کی بہت سی معروف ہستیاں نظر آئیں۔ ہم جہاں سے گزرتے لوگوں کو سلام کرتے جاتے۔ ہر شخص نے ہمیں اپنے خیمے میں آکر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کی دعوت دی، جسے صالح شکریہ کے ساتھ رد کرتا چلا گیا۔ البتہ میں نے ہر شخص سے بعد میں ملنے کا وعدہ کیا۔
راستے میں صالح کہنے لگا:
’’ان میں سے ہر شخص اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھا جائے۔ تم اچھا کررہے ہو کہ ان سے ابھی ملاقات طے کررہے ہو۔ ان میں سے بہت سے لوگوں سے بعد میں وقت لینا بھی آسان نہیں ہوگا۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور محبت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولا:
’’وقت لینا تو تم سے بھی آسان نہیں ہوگا عبداللہ! تمھیں ابھی پوری طرح اندازہ نہیں۔ اس نئی دنیا میں تم خود ایک بہت بڑی حیثیت کے مالک ہوگے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم پروردگار عالم کے معیار پر ہمیشہ سے ایک بہت بڑی حیثیت کے آدمی تھے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے صالح رکا اور مجھے گلے لگالیا ۔ پھر آہستگی سے وہ میرے کان میں بولا:
’’عبد اللہ! تمھارے ساتھ رہنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔‘‘
میں نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کیں اور دھیرے سے جواب دیا:
’’اعزاز کی بات تو خدا کی بندگی کرنا ہے۔ اس کے بندوں کو بندگی کی دعوت دینا ہے۔ یہ میرا اعزاز ہے کہ خدا نے ریت کے ایک بے وقعت ذرے کو اس خدمت کا موقع دیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے احسان مندی کے جذبات سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’ہاں یہی بات ٹھیک ہے۔ خدا ہی ہے جو ذرۂ ریگ کو طلوع آفتاب دیتا ہے۔ تم سورج کی طرح اگر چمکے تو یہ خدا کی عنایت تھی۔ مگر یہ عنایت خدا پرستوں پر ہوتی ہے، سرکشوں، مفسدوں اور غافلوں پر نہیں۔‘‘
ہم ایک دفعہ پھر چلنے لگے اور چلتے چلتے ہم ایک بہت خوبصورت اور نفیس خیمے کے پاس پہنچ گئے۔

جاری ہے، تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔

(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)