یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے باوجود نشتر ہسپتالکے مسائل جوں کے توں ، مریضوں کا بوجھ بڑھنے لگا
ملتان (وقائع نگار) رواں سال 2017میں ملتان سمیت جنوبی پنجاب کا خطہ صحت کی بیشتر ہسپتال سہولیات سے تاحال محروم چلے آرہے ہیں۔ نشتر ہسپتال میں مریضوں کا بوجھ کم ہونے(بقیہ نمبر36صفحہ7پر )
کی بجائے دن بدن بڑھنے لگ گیا ہے۔ روکنی مریض داخل نہ ہونے سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ حکومتی مشینری و ہسپتال انتظامیہ کی کارکردگی صرف کاغذوں کے ٹکڑوں کی نذر ہوگئی ہے۔ واضح رہے تین سل قبل نشتر ہسپتال میں مریضوں کے بڑھتے ہوئے رش کو مد نظر رکھتے ہوئے بستروں کی تعداد 1103سے بڑھا کر 1700کرنے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔مگر تاحال ڈاکٹروں ، نرسوں ، پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ دور دراز کے علاقوں اور دیگر صوبوں سے آتے ہوئے مریضوں کو آپریشن کیلئے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی کئی ماہ کو وقت دیگر انکو ٹکنیکی الجھانوں میں پھنس کر ٹرغا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اب نشتر میڈیکل کالج و ہسپتال کو نشتر یونیورسٹی کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مریضوں کے مسائل کم نہ ہوکسے۔ جبکہ سول ہسپتال ، فاطمہ جناح خواتین ہسپتال، شہباز شریف جنرل ہسپتال کو یکجا کرکے شہباز شریف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے درجہ دے دیا گیا۔ اسی طرح چلڈرن کمپلیکس کا 150بستروں پر مشتمل توسیعی منصوبہ فعال ہوا۔ کڈنی سنٹر کے آغاز کے بعد اسکی نجکاری کردی گئی۔ نشتر ہسپتال کی بلڈبنک کی نجکاری کردی گئی۔ شہباز شریف جنرل ہسپتال کو 100بستروں کے مطابق تاحال فعال نہیں کیا جاسکا۔ نشتر ہسپتال کی سی ٹی سکین مشین پورا سل ہی متعدد بار خراب رہی۔ دو مریضوں کو ایک بستر پر لٹایا گیا ، کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ اور نشتر کینسر ٹریٹمنٹ سکٹر منصوبہ سال 2017میں سست روی کا شکار رہا۔ سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹریوں کی نجکاری کیلئے بھی خصوصی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔اسی طرح نشتر ٹو کا منصوبہ پی سی ون کی منظوری کے بعد فائلوں تک محدود رہا نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں ٹیچنگ سٹاف کی شدید کمی رہی ہے۔ اور محکمہ صحت بھی پولیو کا مقرر ہدف بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔